حماس کے ساتھ مرحلہ وار جنگ بندی کے عزم کے دو ماہ سے بھی کم عرصہ میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے غزہ کی پٹی پہ دوبارہ بمباری شروع کرکے چودہ سو سے زیادہ شہریوں کو شہید کر دیا۔ غزہ کی وزارت صحت نے اسرائیلی حملوں میں اب تک 61,700 فلسطینیوں کے شہید اور115,729کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے، ان حملوں کے دوران غزہ کی تقریباً 90 فیصد آبادی کو بے گھر ہونا پڑا۔
پچھلے اٹھارہ ماہ سے اسرائیلی فوج نے محاصرہ کرکے غزہ میں بسنے والے مسلمانوں کو پانی، خوراک ، ادوایات، شیلٹر ، بجلی، ایندھن اور دیگر اشیاء ضروریہ کی ترسیل روک رکھی ہے ۔ ہر چند کہ مصر، قطر اور امریکہ کی طرف سے جنگ بندی میں توسیع پر دوبارہ بات چیت شروع کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاہم حماس اور اسرائیل اگر جنگ بندی کے لئے نیا قلیل المدتی معاہدہ کر بھی لیں تو غزہ میں جلد حقیقی امن کا امکان دکھائی نہیں دیتا، دنیا کے تین بڑے مذاہب کے مابین یہ دائمی تنازعہ حشر تک کبھی نہ تھمنے والی جنگوں کا محرک بنا رہے گا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ 7 اکتوبر کے بعد نیتن یاہو نے غزہ کی پٹی میں فوجی کارروائیوں سے دو مقاصد حاصل کرنا چاہے، پہلا ، یرغمالیوں کی بازیابی ، دوسرا حماس کو تباہ کرنا۔ لیکن اٹھارہ مہینوں میں نہایت بے رحمی سے جنگی مشین استعمال کرنے کے باوجود وہ دونوں اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ حماس ایسے امن منصوبہ کو کبھی قبول نہیں کرے گی جس میں اسکی اپنی موت کا فیصلہ شامل ہو چنانچہ جب تک اسرائیل متذکرہ بالا اہداف پہ اڑا رہے گا۔
حماس کے زندہ بچ جانے والے رہنماں کے پاس اسرائیلی حملوں کو روکنے کے لیے یرغمالیوں کو پکڑنے کی طاقتور ترغیب موجود رہے گی ۔ مغربی ذرائع ابلاغ بتا رہے ہیں کہ اسرائیلی فوج کے 100 افسران نے نیتن یاہو کو غزہ میں جنگ بندی کا مشورہ دیا ہے لیکن وزیراعظم کے انتہائی دائیں بازو کے ساتھی غزہ کے باشندوں کو بے دخل کرنے کی امریکی تجویز کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں ۔ تاہم ابھی تک غیر واضح ہے کہ آیا نیتن یاہو اپنے سیاسی شراکت داروں کی آرزوؤں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے خود کو تیار کر پائیں گے؟
نیتن یاہو کی سیاسی بقا کے تقاضوں سے قطع نظر صیہونی ریاست اس بات پر غور کر رہی ہے کہ کیا اسرائیلی فوج ایک لمبے عرصہ تک غزہ میں یہ مہنگی لڑائی جاری رکھنے کے قابل ہے؟ کیونکہ نیتن یاہو نے 18 ماہ قبل جب غزہ میں جنگ شروع کی تو تمام اسرائیلیوں کو یقین تھا کہ حماس کو ختم کرنا آسان ہے لیکن جلد ہی یہ واضح ہو گیا کہ اسرائیل کے دونوں فوجی مقاصد ، یرغمالیوں کی محفوظ بازیابی اور حماس کو تباہ کرنا جلد ممکن نہیں ہو سکتا۔
جنگ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل حماس کے بیشتر سرکردہ رہنماؤں کو ہلاک کر چکا مگر تنظیم کے پاس اب بھی گورننس کی صلاحیت اور فعال مزاحمتی ڈھانچہ موجود ہے اور اسرائیل کے پاس میز پر اِن دو تجاویز کے سوا تیسرا آپشن موجود نہیں، یعنی حماس کا مکمل سرنڈر اور اس کی قیادت کو غزہ سے بے دخل کرنا، بصورت دیگر اس وقت تک جنگ جاری رکھنا جب تک کہ اسرائیلی فوج یہی نتیجہ حاصل نہ کر لے ، اس لئے بظاہر یہی لگتا ہے کہ جنگ ختم نہیں ہو گی۔
ادھر ٹرمپ انتظامیہ بھی اب صیہونی تنازعات میں عدم دلچسپی اور امریکہ کے لئے کچھ غیر معمولی کرنے میں سرگرداں دکھائی دیتی ہے، جیسا کہ فروری میں ان کی تجویز کہ امریکہ غزہ کی ملکیت لیکر اسے سیاحوں کی ” ریویرا ” میں تبدیل کر سکتا ہے ، جس کی عالمی سطح پہ بڑے پیمانے پہ مذمت کی گئی۔
لاریب ،ٹرمپ انتظامیہ نے امن مذاکرات میں تاخیر کے بنیادی تضاد کو سمجھنے اور تنازع کے حل کی سنجیدہ کوشش نہیں کی ، نیتن یاہو کا اصرار ہے کہ جنگ بندی کا کوئی بھی عمل حماس کے خاتمے پر منتج ہونا چاہیے لیکن لامحدود قربانیوں کے بعد حماس اِس ریڈ لائن کو عبور کرنے پہ آمادہ نہیں ، نہ تو امریکی ، نہ ہی مصر اور قطر جیسے عرب ثالث ، اب تک حماس رہنماں کو ایسے کسی معاہدے پر دستخط کرنے پر قائل کر سکے جس سے ان کا حتمی سیاسی مشن ، یعنی اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی مزاحمتی تحریک کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنا، ختم ہو جائے۔
اسرائیلی فوج 7 اکتوبر کے جھٹکے سے ابھی پوری طرح سنبھل نہیں پائی تھی کہ حکومت نے مارچ کے وسط میں غزہ میں فوج کے کئی ڈویژنوں کو دوبارہ تعینات کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا ،جس میں تازہ دم فورس کو متحرک کرکے شمالی غزہ کے باشندوں کو واپس جنوب کی پناہ گاہوں میں منتقل کرکے پوری پٹی پر فوجی قبضہ جمانا شامل تھا لیکن اسرائیلی ڈیفنس فورس کے چیف آف اسٹاف ہرزی حلوی نے غزہ میں کسی بھی اسرائیلی فوجی حکومت کے قیام کی شدید مخالفت کرتے ہوئے مارچ کے اوائل میں استعفی دے دیا تھا ، اسرائیل کا یہی داخلی بحران وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ گہرا ہو سکتا ہے۔
اس وقت اسرائیلی مقتدرہ کا مخمصہ یہ ہے کہ نیتن یاہو کی گہری اخلاقی کمزوریاں اور ریاستی ڈھانچے کے اندر کشیدگی اسرائیلی ریاست کو پابہ جولاں رکھے ہوئے ہے ،اس لئے فی الحال حماس شکست سے بہت دور کھڑی نظر آتی ہے ۔ حماس کے دو زندہ بچ جانے والے فوجی کمانڈر، عزالدین الحداد اور محمد سنور ( یحیی سنوار کے بھائی)طویل مزاحمتی جنگ کی قیادت کرنے کو تیار ہیں۔
اسرائیل نے اندازہ لگایا ہے کہ حالیہ مہینوں میں حماس نے تقریبا 20,000 نئے جنگجو بھرتی کر لئے ہیں ۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ غزہ پر دوبارہ قبضہ کرنے کے نتیجے میں اسرائیل کی اضافی فوجی ہلاکتیں اور ممکنہ طور پر مزید یرغمالیوں کی اموات بھی ہو سکتی ہیں ۔ رائے عامہ کے متعدد جائزوں کے مطابق تقریبا 70 فیصد اسرائیلی حماس کے ساتھ باقی تمام یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے حامی ہیں، چاہے اس کے لیے بہت زیادہ قیمت ہی کیوں نہ ادا کرنا پڑے ، جیسے کہ غزہ سے اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کی بساط لپیٹنا اور ہزاروں فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی جیلوں سے رہا کرنا ۔ چنانچہ غزہ پر قبضے کے فوجی منصوبے یا رضاکارانہ ہجرت کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا سنگین سیاسی تنازعات میں الجھ چکا ہے ۔
دسیوں ہزار فوجی پہلے ہی جنگ کے دوران سینکڑوں دن خدمات انجام دیکر ٹوٹ چکے ہیں، جس نے ان کے کیریئر اور خاندانوں کو شدید دھچکا پہنچایا ۔ ماضی میں اسرائیل کو اپنی فورسز کی جانب سے کبھی بھی فوجی خدمات بارے اسقدر گریز کا سامنا نہیں کرنا پڑا، حتیٰ کہ لبنان میں اس کی سیاسی طور پر متنازعہ 1982کی جنگ کے دوران یا 2000 سے 2006 تک جاری رہنے والی دوسری انتفاضہ کے دوران بھی ایسا کچھ نہیں ہوا۔
اسرائیلی فوج کے کئی کمانڈروں کے مطابق بہت سے فوجی اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہنے کے لئے جنگی خدمات سے بچنے کی تگ و دو کر رہے ہیں ۔ کچھ فوجیوں کے غصے کا تعلق غزہ سے باہر حکومت کے طرز عمل سے ہے ، جیسے کہ الٹرا آرتھوڈوکس یہودیوں کے لئے لازمی فوجی سروس سے استثنیٰ کو برقرار رکھنا لیکن بنیادی طور پر، اسرائیل کے فوجی تھک اور جل چکے ہیں ۔ لہذا ہر گزرتے دن کے ساتھ نیتن یاہو کے لئے اس جنگ کو جاری رکھنا دشوار ہوتا جائے گا ۔
اسرائیلی پارلیمنٹ کی جانب سے مارچ کے آخر میں، بجٹ بل کی منظوری نے وقتی طور پہ حکومتی اتحاد کو ٹوٹنے سے بچا لیا جو اسے قبل از وقت انتخابات کی طرف جانے پہ مجبور کرسکتا تھا لیکن نیتن یاہو کے اس تبصرہ کے بعد کہ حکومت غزہ کے مستقبل کے لیے مختلف تجاویز پر غور کر رہی ہے، جس میں عرب ریاستوں کے کنسورشیم کو غزہ کا کنٹرول منتقل کرنا شامل ہے، جس پر انتہائی دائیں بازو کے وزیر برائے آبادکاری، اورٹ اسٹروک نے برہم ہو کر کہا ” غزہ ہمارا اور اسرائیل کی سر زمین کا حصہ ہے ، کیا تم اسے عربوں کے حوالے کر دو گے؟۔
علی ہذالقیاس ، صدر ٹرمپ بھی جوبائیڈن کی طرح اسرائیل کو جنگ کا دائرہ وسیع کرنے کی اجازت نہیں دے رہے بلکہ امریکی صدر اب کسی ایسے عظیم الشان منصوبے کی تلاش میں ہیں جو امریکی،سعودی میگاڈیل ثابت ہو، جس میں اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے غزہ میں مستقل جنگ بندی سمیت اسرائیل کے عزائم کو محدود کرنا شامل ہو گا جبکہ نتین یاہو کسی بھی قیمت پر اپنی منصب کو برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور غزہ کی جنگ کو ابلتا رکھنا اس کے لیے سب سے آسان طریقہ ہے ، چاہے یرغمالیوں ، فلسطینیوں ، مشرق وسطی اور خود اسرائیل کو طویل المدتی قیمت ہی کیوں نہ ادا کرنی پڑے ۔
Discover more from Defence Talks Urdu | Defense News Military Pictures
Subscribe to get the latest posts sent to your email.