کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کے درمیان متنازعہ سرحد پر جھڑپیں منگل کے روز مزید شدت اختیار کر گئیں، جبکہ دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر حملوں کا الزام عائد کرتے ہوئے اپنی علاقائی خودمختاری کے دفاع کا اعلان کیا ہے۔ جھڑپوں کا آغاز پیر سے ہوا تھا، تاہم کشیدگی میں تیزی نے جولائی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
کمبوڈیا کے سابق رہنما ہن سین کے مطابق ان کے ملک نے 24 گھنٹے تک جنگ بندی کے احترام کے بعد جوابی کارروائی شروع کی۔ ان کا کہنا تھا کہ کمبوڈیا امن چاہتا ہے لیکن اپنی سرزمین کے دفاع پر مجبور ہے۔
دوسری جانب تھائی فوج کا کہنا ہے کہ لڑائی سرحد کے کم از کم پانچ صوبوں میں پھیل چکی ہے اور کمبوڈین فورسز راکٹ لانچرز، توپ خانے اور ڈرون حملے کر رہی ہیں۔ تھائی وزارتِ دفاع نے واضح کیا ہے کہ ملک اپنی علاقائی سالمیت کے دفاع کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔
جانی نقصان اور الزامات
کمبوڈیا نے الزام لگایا ہے کہ تھائی حملوں کے نتیجے میں اب تک نو شہری ہلاک اور 20 زخمی ہوئے، جبکہ تھائی حکام کے مطابق تین فوجی مارے گئے اور 29 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
کمبوڈین وزیرِ اعظم کے بیٹے نے بھی کہا کہ تھائی لینڈ کو “خودمختاری کے نام پر دیہات پر حملے” بند کرنے چاہئیں۔
بڑی آبادی متاثر
دونوں ممالک کے مطابق سرحدی علاقوں سے لاکھوں شہریوں کا انخلا کیا جا چکا ہے۔
کشیدگی گزشتہ ماہ اس وقت مزید بڑھی جب تھائی لینڈ نے جنگ بندی کے اقدامات معطل کر دیے، جبکہ بنکاک کا کہنا ہے کہ ایک بارودی سرنگ کا دھماکہ کمبوڈیا کی جانب سے نئی بارودی سرنگیں بچھانے کے بعد ہوا تھا۔
پرانا تنازع
دونوں ممالک ایک صدی سے زیادہ عرصے سے اپنی 817 کلومیٹر طویل سرحد کے کئی حصوں پر خودمختاری کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ قدیم مندروں کی ملکیت اور سرحدی نشاندہی پر اختلافات نے ماضی میں بھی مسلح جھڑپیں بھڑکائیں، جن میں 2011 کی مہلک توپ خانے کی لڑائی بھی شامل ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق فوجی صلاحیت کے لحاظ سے تھائی لینڈ کمبوڈیا کے مقابلے میں واضح برتری رکھتا ہے، تاہم موجودہ صورتحال میں دونوں ملک سفارتی سطح پر تناؤ کا شکار ہیں اور جنگ بندی بحال کرنے کا کوئی واضح راستہ دکھائی نہیں دیتا۔




