امریکہ نے اشارہ دیا ہے کہ ترکی کو ایف-35 پروگرام میں دوبارہ شامل کیا جا سکتا ہے، تاہم شرط یہ ہے کہ ترکی اپنی روسی ساختہ S-400 ایئر ڈیفنس سسٹمز کی ملکیت یا آپریشن کو مکمل طور پر ختم کرے۔
امریکہ کے ترکی میں سفیر ٹام بیرک نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ دونوں ملک ’’کئی برسوں بعد سب سے مثبت‘‘ بات چیت کر رہے ہیں، اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ترک صدر رجب طیب اردوان کے تعلقات نے مذاکرات کے لیے ’’نیا ماحول‘‘ پیدا کیا ہے۔
’’جیسا کہ امریکی قانون میں واضح ہے، ترکیا کو ایف-35 پروگرام میں واپسی کے لیے S-400 نہ چلانے ہوں گے نہ اپنے پاس رکھنے ہوں گے‘‘— سفیر بیرک
پس منظر
2019 میں ترکی نے روس سے S-400 میزائل سسٹم خریدنے کے بعد اسے ایف-35 پروگرام سے خارج کر دیا گیا تھا۔ واشنگٹن کا مؤقف تھا کہ یہ سسٹم نیٹو کے حساس ڈیٹا کو روس تک منتقل کرنے کا خطرہ رکھتا ہے۔ بعد ازاں ترکی کے دفاعی سیکٹر پر CAATSA پابندیاں 2020 میں نافذ کی گئیں۔
ترکی نے اس پروگرام میں تقریباً 1.4 ارب ڈالر سرمایہ کاری کی تھی اور 100 سے زائد طیارے خریدنے کا منصوبہ تھا۔ ترکی کا دعویٰ ہے کہ اسے بلاجواز نکالا گیا۔
اردوان کا مؤقف
صدر اردوان واضح طور پر کہتے آئے ہیں کہ ’’ترکی نے ایف-35 پروگرام سے دستبرداری اختیار نہیں کی‘‘۔
جون 2025 کی ایک ملاقات میں انہوں نے ٹرمپ کو دوبارہ شمولیت کی خواہش سے آگاہ کیا تھا۔ دوسری جانب ترکی اپنی فضائی صلاحیت بڑھانے کے لیے KAAN لڑاکا طیارہ اور Kızılelma ڈرون پروگرام بھی تیزی سے آگے بڑھا رہا ہے۔
S-400 کلیدی مسئلہ
امریکہ کا مؤقف سخت ہے:
’’یا ایف-35، یا S-400—دونوں ایک ساتھ نہیں‘‘
ترکی یہ کہتا رہا ہے کہ امریکہ نے پیٹریاٹ میزائل سسٹم کی بروقت فراہمی نہ کر کے اسے روس کے قریب دھکیلا۔
کچھ سفارتی حلقے اشارہ دیتے ہیں کہ ’’تخلیقی حل‘‘ زیرِ غور ہیں جن میں S-400 کا غیر فعال کرنا، اسٹوریج، یا تیسرے ملک کو منتقل کرنا بھی شامل ہو سکتا ہے—اگرچہ اس پر کسی سرکاری سطح پر تصدیق نہیں ہوئی۔
تنقید اور علاقائی خدشات
امریکی کانگریس سمیت بعض نیٹو اتحادی اس پیش رفت پر تحفظات رکھتے ہیں، خاص طور پر یونان، اسرائیل اور مشرقی بحیرہ روم کے ممالک، جنہیں خدشہ ہے کہ ایف-35 کی بحالی خطے میں طاقت کا توازن بدل سکتی ہے۔
کچھ ناقدین نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ طیاروں کی واپسی سے پہلے ترکی کا انسانی حقوق کا ریکارڈ اور شام میں عسکری اقدامات مدِنظر رکھے جائیں۔
آگے کا راستہ
اگر مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو نیٹو کے جنوبی محاذ اور مشرقی بحیرہ اسود کے تناظر میں یہ ایک بڑی سفارتی کامیابی ہو سکتی ہے۔ ناکامی کی صورت میں ترکی مزید روس اور چین کی طرف جھک سکتا ہے اور اپنے مقامی دفاعی پروگراموں کو تیزی سے آگے بڑھا سکتا ہے۔
امریکی اور ترک سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگلے چند ماہ میں مذاکرات کا نتیجہ سامنے آسکتا ہے—اور فیصلہ کرے گا کہ دونوں ملک تعلقات کو دوبارہ مستحکم کر پاتے ہیں یا یہ معاملہ ایک بار پھر تعطل کا شکار ہو جاتا ہے۔




