اتوار, 14 دسمبر, 2025

تازہ ترین

متعلقہ تحریریں

پاکستان میں پہلی بار سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو سزائے قید

پاکستانی فوج نے تصدیق کی ہے کہ خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی کے بعد 14 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنا دی گئی ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہے کہ کسی سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو کورٹ مارشل کے ذریعے سزا سنائی گئی ہے۔

آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے مطابق 12 اگست 2024 کو پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت فیض حمید کے خلاف باضابطہ کارروائی شروع کی گئی تھی۔ ان پر درج ذیل چار سنگین الزامات عائد تھے:

  • سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا
  • آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی، جو ریاست کے مفاد کے خلاف سمجھا گیا
  • اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال
  • افراد کو غیر قانونی طور پر نقصان پہنچانا

فوج کے مطابق طویل کارروائی کے بعد ملزم کو تمام الزامات میں قصوروار ٹھہرایا گیا اور 11 دسمبر 2025 کو سزا سنائی گئی۔ بیان میں کہا گیا کہ عدالت نے تمام قانونی تقاضوں کی مکمل پاسداری کی اور ملزم کو اپنی پسند کی دفاعی ٹیم سمیت تمام قانونی حقوق فراہم کیے گئے۔ انہیں متعلقہ فورم پر اپیل کا حق بھی حاصل ہے۔

آئی ایس پی آر نے یہ بھی بتایا کہ سیاسی کرداروں کے ساتھ ممکنہ گٹھ جوڑ، سیاسی عدم استحکام کو ہوا دینے اور دیگر حساس معاملات پر الگ سے تحقیقات جاری ہیں۔

حکومتی ردعمل اور قانونی پس منظر

فیض حمید کے وکلا کی جانب سے تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تاہم وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے فیصلے کو ”شواہد کی بنیاد پر ہوا احتساب“ قرار دیتے ہوئے کہا:

“آج ایک ایسی شخصیت کو سزا ملی ہے جس نے ریڈ لائن عبور کی تھی۔”

گزشتہ سال فوج نے ٹاپ سٹی کیس سے متعلق شکایات کی بنیاد پر ایک کورٹ آف انکوائری تشکیل دی تھی۔ سپریم کورٹ کی ہدایات کے تحت یہ تحقیقات ایک میجر جنرل کی سربراہی میں کی گئیں، جن میں ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے متعدد واقعات سامنے آئے۔

یہ بھی پڑھیں  پاکستان اور بھارت دونوں سے رابطے میں ہیں، صورتحال کا ذمہ دارانہ حل تلاش کیا جانا چاہئے، امریکی محکمہ خارجہ

ریٹائرڈ افسر کے خلاف کورٹ مارشل کیسے ممکن ہوا؟

فوج کے مطابق:

  • آرمی ایکٹ کا سیکشن 92 ریٹائرمنٹ کے چھ ماہ بعد کارروائی روک دیتا ہے،
  • مگر سیکشن 31 اور 40 بغاوت پر اکسانے، مالی بے ضابطگی، فراڈ اور بدعنوانی جیسے معاملات میں استثنیٰ فراہم کرتے ہیں۔

اسی قانونی بنیاد پر فیض حمید کے خلاف کارروائی آگے بڑھی۔

ٹاپ سٹی کیس: شکایات کیا تھیں؟

سپریم کورٹ میں ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک معیز احمد خان کی جانب سے دائر درخواست میں درج ذیل الزامات سامنے آئے تھے:

  • 12 مئی 2017 کو رینجرز اور آئی ایس آئی اہلکاروں نے دہشت گردی کے ایک مبینہ کیس میں سوسائٹی کے دفتر اور گھر پر چھاپہ مارا۔
  • درخواست گزار کے مطابق فیض حمید کے بھائی سردار نجف نے ثالثی کی کوشش کی۔
  • دعویٰ کیا گیا کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے ایک کزن کے ذریعے ملاقات کا بندوبست کرایا۔
  • ملاقات کے دوران مبینہ طور پر کہا گیا کہ 400 تولہ سونا اور نقدی کے علاوہ باقی اشیا واپس کر دی جائیں گی۔
  • درخواست میں یہ بھی الزام تھا کہ ریٹائرڈ بریگیڈیئر نعیم فخر اور بریگیڈیئر غفار نے انہیں چار کروڑ روپے نقد دینے اور ایک نجی ٹی وی چینل کو اسپانسر کرنے پر مجبور کیا۔

یہی الزامات آگے چل کر انکوائری اور پھر کورٹ مارشل کی بنیاد بنے۔

ماضی میں کن جنرلز کا کورٹ مارشل ہوا؟

لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی

’سپائی کرانیکلز‘ نامی کتاب کی اشاعت پر فوجی ضابطوں کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا گیا۔ مراعات چھین لی گئیں، نام ای سی ایل میں ڈالا گیا۔

یہ بھی پڑھیں  پاک سعودی دفاعی معاہدہ: کیا امریکا ریاض کو نئے معاہدے کی پیشکش کرے گا یا سہ فریقی فریم ورک بنے گا؟

لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال (2012)

انڈین خفیہ ایجنسی را کو معلومات فراہم کرنے کے الزام میں 14 سال قید کی سزا ہوئی، بعد میں رہا ہو گئے۔

بریگیڈیئر علی خان (2011)

حزب التحریر سے روابط اور فوج میں بغاوت کی کوشش کے الزام میں سزا پائی۔

لیفٹیننٹ جنرل ضیاالدین بٹ (2001)

نواز شریف کے آرمی چیف مقرر کرنے کے اقدام کے بعد جنرل مشرف کے حکم پر گرفتار کیے گئے، بعد میں بری ہو گئے۔

بریگیڈیئر نیاز (1958)

ایوب خان کے دور میں سیاسی سازش کے الزام میں کورٹ مارشل کیا گیا۔

فیصلے کی اہمیت: فوج، سیاست اور احتساب کے تناظر میں ایک بڑی پیش رفت

فیض حمید کا نام طویل عرصے سے پاکستان کی سیاسی حرکیات اور فوج کے اندرونی معاملات کے حوالے سے بحث کا مرکز رہا ہے۔ اس فیصلے کو کئی ماہرین فوج کے اندر احتساب اور شفافیت کے نئے باب کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جبکہ کچھ حلقے اسے سیاسی پس منظر میں ایک اہم علامتی قدم قرار دے رہے ہیں۔

یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ اپیل اور مزید قانونی مراحل میں یہ فیصلہ کیا رخ اختیار کرتا ہے، مگر اتنا واضح ہے کہ یہ مقدمہ پاکستان کی عسکری اور سیاسی تاریخ کا ایک منفرد اور غیر معمولی موڑ ہے۔

آصف شاہد
آصف شاہدhttps://urdu.defencetalks.com
آصف شاہد صحافت کا پچیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں ۔ وہ ڈیفنس ٹاکس کے ایڈیٹر ہیں ۔انہوں نے اپنی صلاحیتوں ، وسیع صحافتی تجربے اور مطالعہ سے ڈیفنس ٹاکس کو دفاع، سلامتی اور سفارت کاری سے متعلق ایک ایسا پلیٹ فارم بنا دیا ہے ۔ جس کے سنجیدہ اردو قارئین ایک مدت سے منتظر تھے ۔ آصف شاہد یہ ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے متعدد قومی اخبارات اور ٹی وی چینلوں میں مختلف عہدوں پر کام کر چکے ہیں ۔ انہوں نے خبریں گروپ میں جوائنٹ ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دیں اور قارئین کو اعلیٰ معیار کے مواد کی فراہمی پر روایت ساز ایڈیٹر ضیا شاہد سے داد پائی۔ انہوں نے میڈیا کے تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے منظر نامے میں موافقت کا مظاہرہ کیا اور اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے پرنٹ میڈیا کے بجائے الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کو منتخب کیا ۔ڈان ٹی وی پر لکھے گئے ان کے فکر انگیز کالم حوالے کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں ۔ان کالموں نے ریٹینگ میں بھی نمایاں درجہ حاصل کیا۔وہ تاریخ ، ادب اور کئی زبانوں کا علم رکھتے ہیں ۔وہ قارئین کو خطے کی سیاست ، سلامتی اور سماجی پیش رفت کے درمیان پیچیدہ تعامل کے بارے میں باریک بینی اور وضاحت کے ساتھ آگاہ کرتے ہیں ۔مذہب کے مطالعہ کی وجہ سے مذہبی تحریکوں کی سوچ کو سمجھتے ہیں اور یہ ان کے لیے قارئین کو عالم اسلام اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال سے درست پس منظر میں پیش کرنے کے لیے مدد گار ہے ۔

جواب دیں

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا

مقبول ترین