امریکی امن مذاکرات کاروں نے برلن میں جاری مذاکرات کے دوران یوکرین کو آگاہ کیا ہے کہ روس کے ساتھ تقریباً چار سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے کسی بھی امن معاہدے میں یوکرین کو مشرقی علاقے دونیتسک سے اپنی فوجیں واپس بلانا ہوں گی۔ اس بات کی تصدیق مذاکرات سے واقف ایک عہدیدار نے کی ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرنے والے ذریعے کے مطابق، یوکرینی اور امریکی وفود کے درمیان جرمنی کے دارالحکومت برلن میں دو روزہ مذاکرات کے بعد کیف نے مزید بات چیت کی درخواست کی ہے، جبکہ ایک اور ذریعے کا کہنا ہے کہ علاقائی معاملات پر اب بھی بڑے اختلافات موجود ہیں۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی برلن میں امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وِٹکوف، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر اور متعدد یورپی رہنماؤں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ واشنگٹن یورپ کی دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے ہولناک تنازع کے خاتمے کے لیے یوکرین پر روس کو رعایتیں دینے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔
تاہم یوکرینی حکام نے مذاکرات کے حوالے سے محتاط مگر مثبت لہجہ اختیار کیا ہے۔
قومی سلامتی اور دفاعی کونسل کے سیکریٹری رستم عمروف نے پیر کے روز ایکس (سابق ٹوئٹر) پر بیان میں کہا،
“گزشتہ دو دنوں میں یوکرین اور امریکہ کے درمیان مذاکرات تعمیری اور نتیجہ خیز رہے ہیں، اور حقیقی پیش رفت ہوئی ہے۔”
انہوں نے کہا کہ امریکی وفد یوکرین کے لیے دیرپا امن کے راستے تلاش کرنے میں سنجیدگی سے کام کر رہا ہے۔
علاقہ اور نیٹو رکنیت مذاکرات کے مرکزی نکات
یوکرین نے اتوار کے روز کہا تھا کہ وہ مغربی سلامتی ضمانتوں کے بدلے نیٹو میں شمولیت کی خواہش ترک کرنے پر آمادہ ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ برلن مذاکرات میں اس معاملے یا یوکرین کے مستقبل کے علاقوں سے متعلق امور پر کتنی پیش رفت ہوئی ہے، اور آیا یہ بات چیت روس کو جنگ بندی پر آمادہ کر سکے گی یا نہیں۔
صدر زیلنسکی نے پیر کے روز ایکس پر لکھا کہ “سفارتی محاذ پر اس وقت بہت سا کام جاری ہے”، تاہم انہوں نے تفصیلات ظاہر نہیں کیں۔
I had a good meeting with the President of Finland, @alexstubb. There is a great deal of work underway on the diplomatic track right now, and we discussed its results. We also coordinated our joint positions ahead of today’s meetings with partners in Berlin and agreed on the next… pic.twitter.com/QxuyQURdjX
— Volodymyr Zelenskyy / Володимир Зеленський (@ZelenskyyUa) December 15, 2025
ماسکو میں کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ یوکرین کی نیٹو میں شمولیت نہ ہونا ممکنہ امن معاہدے کا ایک بنیادی مطالبہ ہے۔ ان کے مطابق روس برلن مذاکرات کے بعد امریکہ سے باضابطہ بریفنگ کا منتظر ہے۔
روس نے یوکرین کے مشرقی ڈونباس خطے، جس میں دونیتسک اور لوہانسک شامل ہیں، کے علاوہ کریمیا اور تین دیگر علاقوں کے الحاق کا دعویٰ کر رکھا ہے، جسے یوکرین اور اس کے یورپی اتحادی ناقابل قبول قرار دیتے ہیں۔ روسی افواج ان تمام علاقوں پر مکمل کنٹرول حاصل نہیں کر سکیں، جن میں دونیتسک کا تقریباً 20 فیصد حصہ بھی شامل ہے۔
صدر زیلنسکی ایک مشکل توازن قائم کیے ہوئے ہیں، جہاں انہیں ٹرمپ انتظامیہ کے سامنے لچکدار دکھائی دینا ہے، مگر ایسے فیصلوں سے بھی بچنا ہے جنہیں یوکرینی عوام مسترد کر دیں۔
پیر کے روز شائع ہونے والے ایک عوامی سروے کے مطابق، تین چوتھائی یوکرینی کسی بھی بڑے سمجھوتے کے خلاف ہیں۔ کیئف انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سوشیالوجی کے سروے میں بتایا گیا کہ 72 فیصد افراد موجودہ محاذ کو منجمد کرنے اور محدود سمجھوتوں پر آمادہ ہیں، تاہم 75 فیصد کا کہنا تھا کہ اگر روس کے حق میں زیادہ علاقائی رعایتیں دی گئیں یا فوجی صلاحیت محدود کی گئی اور واضح سلامتی ضمانتیں نہ ملیں تو ایسا منصوبہ “قطعی طور پر ناقابل قبول” ہوگا۔
انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر انتون ہروشیٹسکی نے کہا،
“اگر سلامتی کی ضمانتیں واضح اور پابند نہ ہوئیں تو یوکرینی عوام ان پر اعتماد نہیں کریں گے۔”
یورپی سفارتکاری کے لیے فیصلہ کن ہفتہ
برلن مذاکرات یورپ کے لیے ایک اہم ہفتے کے آغاز پر ہو رہے ہیں، جہاں جمعرات کو ہونے والے یورپی یونین کے اجلاس میں روسی مرکزی بینک کے منجمد اثاثوں کو استعمال کرتے ہوئے یوکرین کے لیے بڑے قرض کی ضمانت دینے پر فیصلہ متوقع ہے۔
واشنگٹن کی جانب سے یورپ کی ہجرت، سلامتی اور بڑی ٹیک کمپنیوں کے ضوابط پر تنقید کے بعد یورپی یونین اور رکن ممالک متحد ردعمل دینے میں مشکلات کا شکار ہیں۔
پیر کے روز برسلز میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے روس کے “شیڈو فلیٹ” تیل بردار جہازوں کے خلاف نئی پابندیوں پر اتفاق کیا۔
ڈنمارک کے وزیر خارجہ لارس لوکے راسموسن نے کہا،
“اس وقت ہماری سب سے بڑی ترجیح یوکرین کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ یورپ کو دنیا کو دکھانا ہوگا کہ وہ ایک مضبوط کھلاڑی ہے۔”
یورپی کمیشن کی صدر ارسلا فان ڈیر لائن، نیٹو کے سیکریٹری جنرل مارک روٹے، اور فرانس، برطانیہ، اٹلی اور پولینڈ کے رہنما پیر کی شام برلن میں مزید مشاورت میں شریک ہونے کی توقع ہے۔




