بھارت کی پارلیمنت میں ایک مسودہ قانون پیش کیا گیا ہے جس کے تحت جوہری توانائی کے شعبے پر قائم چھ دہائیوں پرانا سرکاری اجارہ ختم ہو جائے گا اور نجی کمپنیاں، حتیٰ کہ افراد بھی، جوہری ری ایکٹر تعمیر کرنے اور چلانے کے اہل ہو سکیں گے۔
سَسٹین ایبل ہارنیسنگ اینڈ ایڈوانسمنٹ آف نیوکلیئر انرجی فار ٹرانسفارمنگ انڈیا بل 2025 کو قانون بننے کے لیے پارلیمان کے ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا دونوں سے منظوری درکار ہوگی۔
ماضی میں جوہری قانون سازی
1962 سے بھارت میں تمام جوہری منصوبے محکمۂ جوہری توانائی کے تحت کام کرنے والی کمپنیوں تک محدود تھے، جن میں نمایاں ادارہ نیوکلیئر پاور کارپوریشن آف انڈیا (NPCIL) ہے۔ 2015 میں کی گئی ترمیم کے تحت دیگر سرکاری کمپنیاں این پی سی آئی ایل کے ساتھ مشترکہ منصوبے قائم کر سکتی تھیں، جس کے بعد این ٹی پی سی، انڈین آئل کارپوریشن اور نالکو کے ساتھ شراکتیں ہوئیں، تاہم ان میں سے کوئی بھی منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔
مجوزہ تبدیلیاں کیا ہیں؟
نئے بل کے تحت نجی شعبے کو مکمل ملکیت کے ساتھ جوہری بجلی گھر تعمیر اور چلانے کی اجازت دی جائے گی۔ تاہم حساس سرگرمیاں، جیسے ایندھن کی افزودگی، استعمال شدہ ایندھن کی دوبارہ تیاری اور ہیوی واٹر کی پیداوار، بدستور حکومتی کنٹرول میں رہیں گی۔
یہ بل کیوں اہم ہے؟
بھارت آئندہ 20 برسوں میں اپنی جوہری بجلی کی پیداواری صلاحیت کو موجودہ 8.2 گیگا واٹ سے بڑھا کر 100 گیگا واٹ تک لے جانا چاہتا ہے، تاکہ جوہری توانائی کو صاف اور کم کاربن توانائی کے منصوبے کا مرکزی ستون بنایا جا سکے۔
اس قانون کے تحت ٹاٹا پاور، اڈانی پاور اور ریلائنس انڈسٹریز جیسی بڑی نجی کمپنیوں کی جانب سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ نجی کمپنیوں کو یورینیم درآمد اور اس کی پروسیسنگ کی اجازت بھی حاصل ہو گی، جبکہ غیر ملکی کمپنیاں بھارتی شراکت داروں کے ساتھ منصوبوں میں شامل ہو سکیں گی۔
غیر ملکی شراکت داری
امریکہ کی ویسٹنگ ہاؤس الیکٹرک اور جی ای-ہیٹاچی، فرانس کی ای ڈی ایف اور روس کی روس ایٹم سمیت کئی عالمی ادارے بھارت کے جوہری منصوبوں میں ٹیکنالوجی اور سازوسامان فراہم کرنے میں دلچسپی ظاہر کر چکے ہیں۔ بل کے تحت بھارتی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ منصوبوں میں غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کی اجازت دی گئی ہے، تاہم غیر ملکی کنٹرول والی کمپنیاں آپریٹنگ لائسنس حاصل نہیں کر سکیں گی۔
ذمہ داری کے قوانین میں نرمی
بل میں ایک ایسی شق ختم کر دی گئی ہے جس کے تحت جوہری پلانٹ کے آپریٹرز آلات فراہم کرنے والی کمپنیوں کے خلاف نقص کی صورت میں قانونی کارروائی کر سکتے تھے۔ یہ شق غیر ملکی کمپنیوں کے لیے ایک بڑی رکاوٹ سمجھی جاتی تھی۔
ماہرین کے مطابق اس تبدیلی سے قانونی خطرات کم ہوں گے، انشورنس ممکن ہو سکے گی اور عالمی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔
حفاظتی انتظامات اور حادثات کی صورت میں اقدامات
تمام آپریٹرز کو حکومتی لائسنس اور ایٹامک انرجی ریگولیٹری بورڈ سے حفاظتی اجازت نامہ حاصل کرنا ہوگا۔ ری ایکٹر کی صلاحیت کے مطابق کمپنیوں کو تقریباً 11 ملین سے 330 ملین امریکی ڈالر تک کے ذمہ داری فنڈز قائم کرنا ہوں گے۔
کسی جوہری حادثے کی صورت میں متاثرین کو معاوضہ آپریٹر کی انشورنس سے ادا کیا جائے گا، جس کی حد 300 ملین اسپیشل ڈرائنگ رائٹس (ایس ڈی آر) تک ہوگی، جو عالمی معیارات کے مطابق ہے۔
اگر یہ بل منظور ہو جاتا ہے تو یہ بھارت کی توانائی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی ثابت ہوگا، جو نہ صرف جوہری شعبے کو ازسرنو تشکیل دے گا بلکہ ملک کے صاف توانائی کے اہداف کو بھی تیز کرے گا۔




