چین نے اپنے نئے Y-30 میڈیم ٹو ہیوی ٹرانسپورٹ طیارے کی پہلی آزمائشی پرواز کامیابی سے مکمل کر لی ہے، جو محض ایک نیا فوجی طیارہ نہیں بلکہ چین کی فوجی حکمتِ عملی میں ایک بڑی ساختی تبدیلی کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔
یہ طیارہ چین کی فضائیہ (PLA Air Force) کی اُس دیرینہ کمی کو پورا کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے جو Y-9 جیسے ٹیکٹیکل طیاروں اور Y-20 جیسے اسٹریٹیجک ہیوی ٹرانسپورٹس کے درمیان موجود تھی۔
Y-30 دراصل ہے کیا؟
Y-30 ایک چار انجنوں والا ٹربوپراپ فوجی ٹرانسپورٹ طیارہ ہے جو:
- 37 سے 40 ٹن تک سامان اٹھا سکتا ہے
- بکتر بند گاڑیاں، توپ خانہ، ہیلی کاپٹر اور فوجی دستے منتقل کر سکتا ہے
- صرف 1,000 میٹر کے مختصر اور غیر ہموار رن ویز سے بھی آپریٹ کر سکتا ہے
یہ صلاحیت اسے جنگی حالات میں انتہائی قیمتی بناتی ہے، جہاں بڑے ہوائی اڈے محفوظ نہیں رہتے۔
چین کو اس طیارے کی ضرورت کیوں تھی؟
جدید جنگ میں صرف لڑاکا طیارے کافی نہیں ہوتے، بلکہ اصل فرق لاجسٹکس یعنی فوج، اسلحہ اور رسد کو بروقت پہنچانے سے پڑتا ہے۔
چین کو درپیش بڑے چیلنجز میں شامل ہیں:
- تائیوان
- جنوبی بحیرۂ چین
- چین۔بھارت سرحد
- دور دراز جزائر اور پہاڑی علاقے
Y-30 چین کو یہ صلاحیت دیتا ہے کہ وہ تیزی سے فوج تعینات کر سکے اور انہیں مسلسل سپورٹ بھی فراہم کر سکے، چاہے دشمن کی نگرانی یا حملے کا خطرہ موجود ہو۔
یہ طیارہ کن مغربی طیاروں کے برابر ہے؟
Y-30 کو اکثر یورپی Airbus A400M کے ہم پلہ قرار دیا جا رہا ہے۔
| طیارہ | پے لوڈ |
|---|---|
| Y-30 (چین) | 37–40 ٹن |
| A400M (یورپ) | تقریباً 37 ٹن |
| C-130J (امریکہ) | تقریباً 20 ٹن |
یوں Y-30، امریکی C-130J سے کہیں زیادہ طاقتور اور A400M کے برابر صلاحیت رکھتا ہے۔
ٹربوپراپ انجن کیوں؟
چین نے جیٹ انجن کے بجائے ٹربوپراپ انجن منتخب کیے، کیونکہ:
- کم رفتار پر زیادہ طاقت
- کم ایندھن خرچ
- مختصر رن وے سے ٹیک آف
- خراب یا عارضی ہوائی پٹیوں پر آپریشن
یہ فیصلہ یوکرین اور مشرقِ وسطیٰ کی جنگوں سے حاصل شدہ تجربات کی عکاسی کرتا ہے۔
فوجی لحاظ سے اس کے کیا اثرات ہوں گے؟
Y-30 کے ذریعے چین:
- فورس پروجیکشن (Force Projection) بہتر کر سکے گا
- محاذِ جنگ پر فوج کو مسلسل رسد دے سکے گا
- ہوائی حملوں کے بعد بھی متبادل ہوائی اڈوں سے آپریشن جاری رکھ سکے گا
یہ سب چیزیں کسی بھی بڑی جنگ میں فیصلہ کن برتری دلا سکتی ہیں۔
علاقائی ممالک کیوں فکر مند ہیں؟
- بھارت: جس کی فضائی ترسیل اب بھی محدود اور پرانے طیاروں پر منحصر ہے
- جاپان اور آسٹریلیا: جو چین کی بڑھتی لاجسٹک صلاحیت کو ایک خطرہ سمجھتے ہیں
- امریکہ: کیونکہ چین اب صرف ہتھیار نہیں بلکہ مکمل جنگی ڈھانچہ تیار کر رہا ہے
کیا یہ طیارہ برآمد بھی ہو سکتا ہے؟
ماہرین کے مطابق، اگر Y-30 کم قیمت پر دستیاب ہوا تو:
- افریقہ
- مشرقِ وسطیٰ
- جنوب مشرقی ایشیا
کے ممالک کے لیے یہ ایک پرکشش متبادل بن سکتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب مغربی طیارے انتہائی مہنگے ہو چکے ہیں۔
آگے کیا ہوگا؟
- طیارہ ابھی مکمل آپریشنل نہیں
- کئی سال کی آزمائش باقی ہے
- 2028–2030 کے بعد سروس میں شامل ہونے کا امکان
لیکن اگر چین سینکڑوں Y-30 طیارے تیار کرنے میں کامیاب ہو گیا تو یہ اس کی فوجی نقل و حرکت کی ریڑھ کی ہڈی بن سکتے ہیں۔
خلاصہ
Y-30 محض ایک نیا جہاز نہیں بلکہ اس حقیقت کا اظہار ہے کہ جدید جنگ میں لاجسٹکس ہی اصل طاقت ہے۔
چین اب صرف لڑنے کی نہیں بلکہ جنگ کو برقرار رکھنے کی مکمل صلاحیت حاصل کرنے کی سمت بڑھ رہا ہے۔




