چین کی فوج نے امریکہ کی جانب سے تائیوان کو 11.1 ارب ڈالر مالیت کے اسلحہ کی فروخت کی منظوری کے بعد اپنی فوجی سرگرمیاں بڑھانے اور “سخت اقدامات” کرنے کا اعلان کیا ہے۔ چینی وزارتِ دفاع نے کہا ہے کہ یہ اقدامات ملک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لیے کیے جائیں گے۔
جمعے کو جاری بیان میں چینی وزارتِ دفاع نے کہا کہ امریکہ کے سامنے “سخت احتجاج” درج کرایا گیا ہے اور واشنگٹن سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر تائیوان کو اسلحہ فراہم کرنا بند کرے اور تائیوان کی آزادی کی حمایت نہ کرے۔
بیان میں کہا گیا،
“تائیوان کی نام نہاد علیحدگی پسند قوتیں تائیوان کے عوام کی سلامتی اور فلاح کو داؤ پر لگا کر عام لوگوں کے پیسے امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔”
چینی وزارتِ دفاع نے خبردار کیا کہ امریکہ بار بار اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹ رہا ہے اور تائیوان کی حمایت کے ذریعے خود کو نقصان پہنچانے کا خطرہ مول لے رہا ہے۔
پیپلز لبریشن آرمی کی تیاری میں اضافہ
چینی فوج، پیپلز لبریشن آرمی (PLA)، نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی فوجی تربیت اور جنگی تیاری کو مزید مضبوط کرے گی اور تائیوان کی علیحدگی پسندی اور بیرونی مداخلت کو ناکام بنانے کے لیے مضبوط اقدامات کرے گی، تاہم ان اقدامات کی تفصیل ظاہر نہیں کی گئی۔
امریکی اسلحہ پیکج کی تفصیلات
یہ اسلحہ پیکج اب تک کا سب سے بڑا امریکی دفاعی معاہدہ ہے، جس میں ہائمارس (HIMARS) راکٹ سسٹمز، توپیں، جیولن اینٹی ٹینک میزائل، خودکش ڈرونز اور دیگر فوجی سازوسامان شامل ہیں۔ ہائمارس سسٹم یوکرین جنگ میں روسی افواج کے خلاف مؤثر ثابت ہو چکا ہے۔
امریکہ، چین اور تائیوان کا تنازع
اگرچہ امریکہ کے چین کے ساتھ باضابطہ سفارتی تعلقات ہیں، مگر وہ تائیوان کے ساتھ غیر رسمی تعلقات رکھتا ہے اور امریکی قانون کے تحت تائیوان کو دفاعی صلاحیت فراہم کرنے کا پابند ہے۔ یہی اسلحہ فروخت چین اور امریکہ کے درمیان مستقل کشیدگی کا باعث بنتی رہی ہے۔
تائیوان کی جمہوری طور پر منتخب حکومت چین کے خودمختاری کے دعوے کو مسترد کرتی ہے اور کہتی ہے کہ جزیرے کے مستقبل کا فیصلہ صرف تائیوان کے عوام کر سکتے ہیں۔
چین نے تائیوان کے صدر لائی چنگ تے سے بات چیت کی پیشکشیں مسترد کر دی ہیں اور انہیں علیحدگی پسند قرار دیا ہے۔ بیجنگ نے تائیوان پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کو بھی مسترد نہیں کیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، امریکی اسلحہ معاہدے کے بعد چین کی جانب سے فوجی دباؤ میں مزید اضافہ متوقع ہے، جس سے تائیوان آبنائے میں کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے۔




