اتوار, 14 دسمبر, 2025

تازہ ترین

متعلقہ تحریریں

افغان طالبان مخالف تین بڑی تحریکوں کا اتحاد: ’سیاسی حل اور نئے آئین کی ضرورت‘

افغانستان میں طالبان کے خلاف سرگرم مختلف سیاسی دھڑوں نے کہا ہے کہ وہ پہلی بار مشترکہ بیانیہ اور متفقہ سیاسی لائحہ عمل کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔ قومی مزاحمتی کونسل کے ترجمان عبداللہ قرلق نے بتایا کہ طالبان مخالف تین بڑی تحریکیں ایک معاہدے پر پہنچ گئی ہیں اور موجودہ بحران کے حل کے لیے ایک آواز میں بات کر رہی ہیں۔

بیان کے مطابق اس مشترکہ پلیٹ فارم میں تین بڑی تحریکیں شامل ہیں:

  • نیشنل ریزسٹنس کونسل فار سالویشن آف افغانستان
  • نیشنل اسمبلی فار سالویشن
  • افغانستان نیشنل موومنٹ فار پیس اینڈ جسٹس

ترجمانوں کے مطابق یہ پہلا موقع ہے کہ سابق حکومت کے جہادی رہنما، ٹیکنو کریٹس اور مختلف نسلی قیادت ایک وسیع اتحاد میں اکٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اس اتحاد کو ’’پائیدار امن کا سنہری موقع‘‘ قرار دیا ہے۔

بیان کے اہم نکات

مشترکہ بیان میں نئے آئین، سیاسی معاہدے کی راہ ہموار کرنے، اور قومی و مقامی انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر سیاسی بحران کو جامع مذاکرات کے ذریعے حل نہ کیا گیا تو اس کے طالبان کے لیے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔

بیان میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ:

  • سیاسی سمجھوتہ بین الاقوامی ضمانت کے ساتھ ہو
  • اس پر عملدرآمد کی نگرانی عالمی برادری کرے
  • خواتین اور نوجوانوں کی شمولیت یقینی بنائی جائے
  • انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور جبری نقل مکانی روکی جائے

سیاسی رہنماؤں نے معدنیات کی ’’غیر شفاف فروخت‘‘ ختم کرنے اور انسانی امداد کو ’’غیر جانبدار کمیٹی‘‘ کے ذریعے بحال کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

یہ بھی پڑھیں  افغانستان کی طالبان حکومت کا 39 افغان سفارتخانوں اور قونصل خانوں پر مکمل کنٹرول

بیک گراؤنڈ

افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد متعدد سابق سیاسی اور فوجی رہنما ملک چھوڑ کر بیرونِ ملک سرگرم ہیں۔ ان میں احمد مسعود، عطا محمد نور، یونس قانونی، عبدالرشید دوستم اور محمد محقق جیسے نام شامل ہیں، جو ماضی میں ایک دوسرے کے مخالف گروہ تھے۔

حال ہی میں ایران میں ہونے والی ملاقاتوں میں بعض طالبان مخالف شخصیات کو طالبان کے ساتھ مفاہمت کی ترغیب دی گئی تھی، جبکہ طالبان کے اعلیٰ حکام بھی ایران کے دورے پر رہے ہیں۔ اس تناظر میں اپوزیشن کا مشترکہ اتحاد طالبان پر سیاسی دباؤ بڑھانے کی کوشش بھی سمجھا جا رہا ہے۔

افغانستان میں طالبان دو برس سے زائد عرصے سے حکمرانی کر رہے ہیں اور خواتین کی تعلیم، ملازمت، نقل و حرکت سمیت متعدد پابندیوں، سابق اہلکاروں کی گرفتاری اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔

انجم ندیم
انجم ندیم
انجم ندیم صحافت کے شعبے میں پندرہ سال کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اس دوران انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ملک کے مین سٹریم چینلز میں بطور رپورٹر کیا اور پھر بیورو چیف اور ریزیڈنٹ ایڈیٹر جیسے اہم صحافتی عہدوں پر فائز رہے۔ وہ اخبارات اور ویب سائٹس پر ادارتی اور سیاسی ڈائریاں بھی لکھتے ہیں۔ انجم ندیم نے سیاست اور جرائم سمیت ہر قسم کے موضوعات پر معیاری خبریں نشر اور شائع کرکے اپنی صلاحیت کا ثبوت دیا۔ ان کی خبر کو نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا گیا۔ انجم ندیم نے ملک کے جنگ زدہ علاقوں میں بھی رپورٹنگ کی۔ انہوں نے امریکہ سے سٹریٹیجک اور گلوبل کمیونیکیشن پر فیلو شپ کی ہے۔ انجم ندیم کو پاکستان کے علاوہ بین الاقوامی خبر رساں اداروں میں بھی انتہائی اہم عہدوں پر کام کرنے کا تجربہ ہے۔ انجم ندیم ملکی اور بین الاقوامی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ کالم نگار بھی ہیں۔ صحافتی گھرانے سے تعلق رکھنے والے انجم ندیم قانون کو بھی پیشے کے طور پر کرتے ہیں تاہم وہ صحافت کو اپنی شناخت سمجھتے ہیں۔ وہ انسانی حقوق، اقلیتوں کے مسائل، سیاست اور مشرق وسطیٰ میں بدلتی ہوئی اسٹریٹجک تبدیلیوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

جواب دیں

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا

مقبول ترین