ہفتہ, 6 دسمبر, 2025

تازہ ترین

متعلقہ تحریریں

ماسکو کی شاہراہوں سے شام کے ساحل تک: اسد خاندان کی خاموش بغاوت اور نئی جنگ کا ابھرتا ہوا نقشہ

ماسکو کی برف سے ڈھکی شاہراہوں پر ایستادہ ریڈیسن ہوٹل کی کھڑکیوں کے پیچھے، شام کی سیاست کے دو سابق بادشاہ گر—میجر جنرل کمال حسن اور ارب پتی رمی مخلوف—اپنے ملک کے مستقبل کا ایک ایسا نقشہ بنا رہے ہیں جو نہ صرف دمشق کی نئی حکومت کے اعصاب پر سوار ہے بلکہ فرقہ وارانہ آگ کے دوبارہ بھڑک اٹھنے کا خطرہ بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
یہ وہی شام ہے جہاں بشارالاسد کی چوبیس سالہ حکومت تو گر چکی ہے، مگر اس حکومت کا عسکری اور مالیاتی ڈھانچہ اب بھی اتنا مضبوط ہے کہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ایک نئی طاقت کی شکل اختیار کرنے کی کوشش میں ہیں۔

جلاوطنی کا شہر: جہاں ایک نئی جنگ کی بنیاد رکھی جا رہی ہے

رمی مخلوف—جو ایک زمانے میں شام کی تیس فیصد معیشت پر غیرعلانیہ قبضہ رکھتا تھا—اب ماسکو کے ایک پُرتعیش ہوٹل میں محدود مگر سرگرم زندگی گزار رہا ہے۔
اس کے کمرے کی میز پر قرآن، تجریدی خاکے اور تین جلدوں پر مشتمل وہ مسودہ پڑا ہے جسے وہ اپنی "مذہبی تعبیر” قرار دیتا ہے۔ یہی مسودہ اس کے ذہن میں ایک نئے مشن کو جائز ٹھہراتا ہے:
“خدا نے مجھے دولت اور اختیار دیا ہے تاکہ میں آخری لڑائی میں اپنی قوم کی رہنمائی کروں۔”

ادھر ماسکو کے مضافات میں ایک تین منزلہ ولا کے اندر کمال حسن—شام کی ملٹری انٹیلی جنس کا وہ سابق چیف جس کی فائلوں میں ہزاروں لاپتہ افراد کی کہانیاں دفن ہیں—اپنے وفاداروں کو واٹس ایپ وائس نوٹس بھیج رہا ہے، جیسے کوئی جنرل ایک شکست خوردہ فوج کو دوبارہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہو:
“صبر کرو، میرے لوگو، ابھی وقت آیا نہیں… مگر آئے گا۔”

یہ بھی پڑھیں  عرب بہار کے بھوت کی واپسی کے خوف سے خلیجی بادشاہتیں لڑکھڑنے لگیں

ان دونوں کے درمیان ایک قدرِ مشترک ہے:
اقتدار سے محرومی نے ان کے اندر انتقام اور بحالی کی نئی خواہش پیدا کر دی ہے۔

14 زیرِ زمین کمانڈ روم: اسد کے آخری دنوں کی خفیہ میراث

Image

شام میں بشارالاسد کے آخری مہینوں میں جو 14 زیرِ زمین کمانڈ سینٹرز بنائے گئے تھے، وہ آج اس نئی سازش کا محور ہیں۔
یہ کمانڈ رومز ساحلی علاقوں—لطاکیہ، طرطوس، بانیاس—کے اندر اس طرح چھپائے گئے تھے کہ اگر دمشق گر بھی جائے تو "آخری جنگ” یہی سے لڑی جا سکے۔

اب حسن اور مخلوف دونوں ان خفیہ مراکز کا کنٹرول چاہتے ہیں، کیونکہ جس کے پاس یہ مراکز ہوں گے، وہی ساحلی شام کا اصل حکمران ہوگا۔

دو متحارب اتحادی: ایک دوسرے سے مختلف مگر مجبوراً ایک ساتھ

کمال حسن

  • سابق ملٹری انٹیلی جنس چیف
  • لبنان اور شام میں تقریباً 12,000 جنگجوؤں کی مبینہ وفاداری
  • اب تک ڈیڑھ ملین ڈالر جنگجوؤں پر خرچ کر چکا ہے
  • 30 سابق سرکاری ہیکرز کی خدمات حاصل کر کے نئی حکومت پر سائبر حملے کروا رہا ہے

رمی مخلوف

  • سابق اقتصادی شہنشاہ
  • 54,000 جنگجوؤں کی مالی سرپرستی کا دعویٰ
  • ماہانہ لاکھوں ڈالر تنخواہوں کی مد میں
  • مذہبی استعاروں اور غیبی کرداروں کے ساتھ اپنی "مقدس جنگ” کی تشہیر

ان دونوں کے درمیان اعتماد نہیں۔
ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کے باوجود دونوں اسد خاندان کی کمزوری کو اپنی طاقت میں بدلنے کی کوشش میں ہیں۔

مہر الاسد: وہ خاموش کردار جو سب کچھ بدل سکتا ہے

شام کے سابق صدر بشارالاسد کا بھائی مہر الاسد اس وقت ماسکو میں ہے، مگر اس کے پاس اب بھی شام میں ہزاروں سابق فوجیوں کا نیٹ ورک باقی ہے۔
وہ 4th آرمرڈ ڈویژن کا وہ کمانڈر تھا جس کے نام سے پورا ملک لرزتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں  ترکی کا شام میں دو فوجی اڈے قائم کرنے اور 50 ایف 16 طیاروں کی تعیناتی کا منصوبہ

اس کے بارے میں سب ایک بات پر متفق ہیں:
اگر مہر کسی ایک گروہ کا ساتھ دے دے تو کھیل فوراً بدل جائے گا۔
فی الحال وہ خاموش ہے… اور یہی خاموشی سب سے خطرناک ہے۔

نئی شامی حکومت کا جوابی وار: خالد الاحمد کا مشن

دمشق میں نئی حکومت نے بھی ہاتھ پر ہاتھ نہیں رکھا۔
صدر احمد الشرع—نے اپنے بچپن کے دوست خالد الاحمد، جنہوں نے خانہ جنگی کی آخری لڑائی میں بشارالاسد کا ساتھ چھوڑ دیا تھا، کو شمالی اور ساحلی علاقوں میں ایک خفیہ مہم پر بھیجا ہے:

  • سابق علوی فوجیوں سے ملاقاتیں
  • نوجوانوں کو نئی ریاست سے جوڑنے کی کوشش
  • حسن اور مخلوف کے بیانیے کو کاٹنے کے لیے زمینی حقائق پیش کرنا

طرطوس کے گورنر احمد الشامی کے مطابق:
“ہمیں ان کی تمام سرگرمیوں کی خبر ہے۔ ان کے پاس وسائل کم ہیں، صلاحیت محدود ہے، اور عوام ان پر اعتماد نہیں کرتے۔”

بغاوت کی زمینی حقیقت: خوف، تھکن اور روزانہ کی ہلاکتیں

مارچ میں ساحلی شہر میں 1,500 شہریوں کی ہلاکت نے علوی آبادی کو شدید عدم تحفظ میں مبتلا کیا۔
جنگجوؤں کے رہنما روزانہ قتل اور اغوا کو نئے انقلاب کی بنیاد بتاتے ہیں، لیکن سادہ حقیقت یہ ہے کہ
عوام دوبارہ جنگ نہیں چاہتے۔

ایک سابق انٹیلی جنس افسر نے لبنان سے کہا:
“فرقے کی عزت خون سے ہی بحال ہوگی۔ اگر ہزاروں بھی مر جائیں تو یہ قربانی ناگزیر ہے۔”
یہ جملہ خود اس ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے جو شام کو دوبارہ خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہی ہے۔

روس کا بدلتا ہوا کردار: اب صرف اڈوں کی فکر

ایک وقت تھا جب ماسکو دمشق کا سب سے بڑا سیاسی محافظ تھا۔
آج روس کا موقف صاف ہے:

  • اسے صرف اپنے فوجی اڈوں سے دلچسپی ہے
  • وہ نہ حسن کا ساتھ دے گا نہ مخلوف کا
  • نہ ہی وہ ایک نئی خانہ جنگی چاہتا ہے
یہ بھی پڑھیں  یوکرین نے امریکی میزائلوں کے بعد روسی سرزمین پر برطانوی میزائل بھی داغ دیے

روس کا ایک ممکنہ مہرہ—سینئر افسر احمد الملا—ماسکو میں دونوں فریقوں سے ملاقاتیں کر رہا ہے، مگر ابھی تک واضح نہیں کہ کریملن کس سمت جھکے گا۔

مالیاتی حقیقت: جنگ پیسہ مانگتی ہے—اور پیسہ کم پڑ رہا ہے

مخلوف کے اثاثے بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے منجمد ہیں۔
حسن کے پاس محدود سرمایہ ہے۔
دونوں کے جنگجوؤں کو ماہانہ صرف 20 تا 30 ڈالر مل رہے ہیں—جو کسی بڑی بغاوت کے لیے ناکافی ہے۔

زمینی کمانڈروں کا کہنا ہے:
“وہ ہمیں پیسے دیتے ہیں، ہم لے لیتے ہیں… لیکن کسی کے لیے لڑنے کا ابھی ارادہ نہیں۔”

کیا نئی بغاوت ممکن ہے؟

حالات کی روشنی میں:

  • عوام تھکے ہوئے
  • جنگجوؤں میں تقسیم
  • روس غیرجانبدار
  • نئی حکومت طاقت پکڑ رہی
  • حسن اور مخلوف ایک دوسرے سے متصادم

بغاوت فی الحال کمزور ہے، مگر خطرہ باقی ہے۔
اگر مہر الاسد شامل ہو گیا، یا ساحلی علاقوں میں مزاحمت بڑھ گئی تو شام دوبارہ ایک تباہ کن مرحلے میں داخل ہو سکتا ہے۔

نتیجہ: ایک خطرناک خاموشی

شام کی سیاست اس وقت ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں

  • ماضی کے ظالم
  • حال کے کمزور
  • اور مستقبل کے بے یقینی میں مبتلا عوام
    — سب ایک بار پھر حادثے کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔

ماسکو کی برفیلی راتوں میں جس بغاوت کا خاکہ بن رہا ہے، وہ اکیسویں صدی کی مشرقِ وسطیٰ کی نئی اور شاید سب سے پیچیدہ جنگ کی بنیاد بھی بن سکتا ہے۔

انجم ندیم
انجم ندیم
انجم ندیم صحافت کے شعبے میں پندرہ سال کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اس دوران انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ملک کے مین سٹریم چینلز میں بطور رپورٹر کیا اور پھر بیورو چیف اور ریزیڈنٹ ایڈیٹر جیسے اہم صحافتی عہدوں پر فائز رہے۔ وہ اخبارات اور ویب سائٹس پر ادارتی اور سیاسی ڈائریاں بھی لکھتے ہیں۔ انجم ندیم نے سیاست اور جرائم سمیت ہر قسم کے موضوعات پر معیاری خبریں نشر اور شائع کرکے اپنی صلاحیت کا ثبوت دیا۔ ان کی خبر کو نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا گیا۔ انجم ندیم نے ملک کے جنگ زدہ علاقوں میں بھی رپورٹنگ کی۔ انہوں نے امریکہ سے سٹریٹیجک اور گلوبل کمیونیکیشن پر فیلو شپ کی ہے۔ انجم ندیم کو پاکستان کے علاوہ بین الاقوامی خبر رساں اداروں میں بھی انتہائی اہم عہدوں پر کام کرنے کا تجربہ ہے۔ انجم ندیم ملکی اور بین الاقوامی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ کالم نگار بھی ہیں۔ صحافتی گھرانے سے تعلق رکھنے والے انجم ندیم قانون کو بھی پیشے کے طور پر کرتے ہیں تاہم وہ صحافت کو اپنی شناخت سمجھتے ہیں۔ وہ انسانی حقوق، اقلیتوں کے مسائل، سیاست اور مشرق وسطیٰ میں بدلتی ہوئی اسٹریٹجک تبدیلیوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

جواب دیں

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا

مقبول ترین