طالبان قیادت میں بیعت، اطاعت اور اتحاد پر غیر معمولی زور کیوں؟ کیا یہ بڑھتی ہوئی اندرونی تقسیم کا اشارہ ہے؟
افغان طالبان کے اندرونی اختلافات اب محض پسِ پردہ قیاس آرائی نہیں رہے۔ طالبان قیادت کے حالیہ بیانات، تقاریر اور ردعمل اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ امارتِ اسلامی کے اندر تشویش کی سطح غیر معمولی حد تک بڑھ چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملا برادر سے لے کر ملا یعقوب اور ندا محمد ندیم تک، تقریباً تمام اہم طالبان رہنما مسلسل “اسلامی نظام کی بقا، امیر کی بیعت اور اطاعت” پر زور دے رہے ہیں۔
سیاسی تاریخ میں ایسا اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب کسی نظام کو بار بار اپنی بقا کا اعلان کرنا پڑے تو اس کے پیچھے عدم اعتماد، داخلی اختلاف یا اقتدار کے توازن میں بگاڑ موجود ہوتا ہے۔ طالبان کا موجودہ طرزِ بیان بھی اسی طرف اشارہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔
حقانی بیانات اور قندھار ردعمل
سراج الدین حقانی کے حالیہ سخت اور غیر معمولی بیانات کے بعد قندھار کے دھڑے اور امیر ہیبت اللہ اخوندزادہ کے قریبی حلقوں کی جانب سے فوری ردعمل سامنے آیا۔ صوبہ خوست میں طالبان کے وزیر داخلہ کا یہ کہنا کہ “دھمکی اور خوف سے حکومت نہیں کی جا سکتی” محض عوامی نصیحت نہیں بلکہ طالبان قیادت کے اندر طاقت کے مراکز کو دیا گیا واضح پیغام تھا۔
اس کے فوراً بعد وزیرِ اعلیٰ تعلیم ندا محمد ندیم نے کابل میں طالبان کے درمیان “بداعتمادی” اور “اختلاف” کے خلاف کھل کر بات کی اور خبردار کیا کہ اگر اتحاد برقرار نہ رہا تو طالبان انتظامیہ کی بقا خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
عباس ستانکزئی اور اختلاف کی لکیر
حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے عباس ستانکزئی ان چند سرکردہ طالبان رہنماؤں میں شامل ہیں جنہوں نے کھلے عام ہیبت اللہ اخوندزادہ کے فیصلوں پر تنقید کی۔ اس تنقید کے بعد انہیں افغانستان چھوڑنا پڑا، تاہم سراج الدین حقانی نے خود کو ایک عملی اور حقیقت پسند طالبان رہنما کے طور پر پیش کر کے اختلاف کی ایک نئی لکیر واضح کر دی ہے۔
اگرچہ ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ اختلافات کتنے گہرے ہیں، لیکن فکری اور پالیسی سطح پر تقسیم اب واضح ہو چکی ہے۔
خواتین، تعلیم اور دنیا سے تعلقات
امریکی محقق مائیکل کوگل مین کے مطابق، طالبان قیادت کے اندر اختلافات کا مرکز خواتین کے حقوق، لڑکیوں کی تعلیم اور عالمی برادری کے ساتھ تعلقات ہیں۔ طالبان کی سخت گیر پالیسیاں افغانستان کو شدید سیاسی اور معاشی تنہائی میں دھکیل چکی ہیں، جس کا اثر براہِ راست حکمرانی کی صلاحیت پر پڑ رہا ہے۔
اس تنہائی کے دو بڑے نتائج سامنے آئے ہیں:
اول، طالبان حکومت معاشی طور پر کمزور اور غیر مستحکم ہو رہی ہے۔
دوم، بیرونی طاقتوں کو طالبان مخالف مسلح گروہوں کی حمایت کا موقع مل رہا ہے۔
خطے کی بے اعتمادی
طالبان اس وقت اندرونی مزاحمت اور علاقائی عدم اعتماد، دونوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
پاکستان دہشت گردی کی نئی لہر سے دوچار ہے اور کھلے عام افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کی بات کر رہا ہے۔
ایران طالبان پر داخلی مذاکرات اور اقتدار میں شراکت کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔
روس اور چین کو داعش، اویغور عسکریت پسندی اور وسطی ایشیا میں عدم استحکام کا خوف لاحق ہے۔
خطے کا کوئی بھی بڑا ملک طالبان کے موجودہ نظام کا کھل کر دفاع نہیں کرتا۔
علما، بیعت اور اطاعت کا بیانیہ
اسی پس منظر میں طالبان قیادت کا علما اور مذہبی اسکالرز کی طرف رجوع کرنا ایک واضح سیاسی حکمتِ عملی ہے۔ مساجد میں “اسلامی نظام کے دفاع” کی تبلیغ دراصل عوامی حمایت برقرار رکھنے اور اندرونی اختلافات کو دبانے کی کوشش ہے۔
ہیبت اللہ کے گرد موجود حلقوں کی جانب سے بیعت، وفاداری اور اطاعت پر مسلسل زور اس خدشے کی عکاسی کرتا ہے کہ کہیں امارت کے اندر سے ہی قیادت کو چیلنج نہ کر دیا جائے۔
دو بڑے خطرات
طالبان کو اس وقت دو بڑے خطرات درپیش ہیں:
- مکمل کنٹرول کھو دینے کا خطرہ کیونکہ نہ علاقائی اور نہ عالمی حالات ان کے حق میں ہیں۔
- ہیبت اللہ اخوندزادہ کی قیادت کو چیلنج، جنہیں بہت سے حلقے اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔
اسی لیے ان کے گرد موجود لوگ بیعت کی تجدید اور وفاداری پر غیر معمولی زور دے رہے ہیں۔
نتیجہ
طالبان کی حکومت بظاہر مضبوط نظر آتی ہے، مگر اندر سے دباؤ، خوف اور عدم اعتماد کا شکار ہے۔ اگر یہ داخلی اختلافات شدت اختیار کرتے ہیں تو نہ صرف طالبان کی امارت بلکہ پورے خطے کی نازک توازن بھی متاثر ہو سکتا ہے۔
افغانستان ایک بار پھر ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔ اصل سوال یہ نہیں کہ تبدیلی آئے گی یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ وہ تبدیلی کس قیمت پر آئے گی۔




