یورپی یونین کے مجوزہ “فلیگ شپ” دفاعی منصوبوں — جن میں انسدادِ ڈرون نظام، جسے ابتدائی طور پر “ڈرون وال” کہا گیا تھا، بھی شامل ہے — کا مستقبل غیر یقینی ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ یورپی رہنما آئندہ ہفتے برسلز میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں ان منصوبوں کی باضابطہ منظوری دینے سے گریز کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
یہ منصوبے یورپی کمیشن اور بعض رکن ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی اختیاراتی کشمکش کا مرکز بن چکے ہیں۔ رکن ممالک کا مؤقف ہے کہ بڑے دفاعی منصوبے بنیادی طور پر قومی حکومتوں اور نیٹو کا معاملہ ہیں، نہ کہ یورپی یونین کے انتظامی ادارے کا۔
جرمنی، فرانس اور اٹلی جیسے بڑے دفاعی صنعتی ممالک، جن کے پاس مضبوط اسلحہ سازی اور خریداری کے ادارے موجود ہیں، واضح کر چکے ہیں کہ وہ دفاعی صلاحیتوں کی ترقی کے لیے یورپی کمیشن کی قیادت میں منصوبوں کے بجائے ممالک کے باہمی اتحاد (coalitions) کے ذریعے کام کو ترجیح دیتے ہیں۔
ایک یورپی سفارت کار نے کہا کہ فلیگ شپ منصوبوں کے حوالے سے “واضح شکوک و شبہات” پائے جاتے ہیں، تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ آیا یہ منصوبے مکمل طور پر ختم ہوں گے یا نہیں۔ کئی دیگر سفارت کاروں نے بھی اسی رائے کی تائید کی۔
شمالی اور مشرقی یورپی ممالک ان منصوبوں کو زندہ رکھنے کے لیے منگل کے روز ہیلسنکی میں یورپی یونین کے مشرقی محاذ کے رہنماؤں کے اجلاس میں ان کی حمایت کا اظہار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جو برسلز سربراہی اجلاس سے دو دن قبل ہوگا۔
یورپی کمیشن کا دباؤ، رکن ممالک کی مزاحمت
یورپی کمیشن نے اکتوبر میں چار دفاعی فلیگ شپ منصوبے پیش کیے تھے، جو 2030 تک یورپ کی دفاعی تیاری کے لیے ایک جامع “روڈ میپ” کا حصہ ہیں۔ یہ منصوبہ 2022 میں یوکرین پر روسی حملے کے بعد بڑھتے ہوئے سکیورٹی خدشات اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ کی یورپی سلامتی کے لیے وابستگی پر شکوک کے تناظر میں سامنے آیا۔
ان منصوبوں میں یورپی ڈرون دفاعی اقدام (Drone Defence Initiative)، جسے پہلے “ڈرون وال” کہا گیا، مشرقی سرحدوں کو مضبوط بنانے کے لیے “ایسٹرن فلینک واچ”، یورپی فضائی دفاعی شیلڈ اور یورپی خلائی دفاعی شیلڈ شامل ہیں۔
یورپی کمیشن نے مطالبہ کیا تھا کہ یورپی رہنما سال کے اختتام تک ان منصوبوں کی منظوری دیں، تاہم آئندہ جمعرات کو ہونے والے سربراہی اجلاس کے مسودہ اعلامیے میں ان منصوبوں کا کوئی ذکر شامل نہیں۔ کسی بھی نکتے کو اجلاس کے حتمی اعلامیے میں شامل کرنے کے لیے تمام 27 رکن ممالک کی متفقہ منظوری ضروری ہوتی ہے، جو اس مرحلے پر ممکن دکھائی نہیں دیتی۔
ایک یورپی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا،
“فلیگ شپ منصوبوں کا ذکر اس لیے شامل نہیں کیا گیا کیونکہ کچھ رکن ممالک اس تصور کے خلاف ہیں، تاہم بعض ممالک ان پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔”
یورپی کمیشن نے کہا ہے کہ وہ رکن ممالک کے ساتھ مل کر ان منصوبوں کو عملی شکل دینے کے لیے کام جاری رکھے گا، کیونکہ یہ 2030 تک یورپ کی دفاعی تیاری کے لیے ناگزیر ہیں۔
ڈرون وال منصوبہ توجہ کا مرکز مگر اختلافات برقرار
ڈرون وال منصوبے کو اس وقت خاص توجہ حاصل ہوئی جب ستمبر میں تقریباً 20 روسی ڈرونز پولینڈ کی فضائی حدود میں داخل ہوئے، اور بعد ازاں رومانیہ، ڈنمارک اور جرمنی میں بھی ڈرون واقعات پیش آئے۔
یورپی کمیشن کے مطابق، اس منصوبے کے تحت پورے یورپ میں سینسرز، جیمنگ سسٹمز اور ہتھیاروں پر مشتمل ایک نیٹ ورک قائم کیا جانا تھا تاکہ ڈرون خطرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔
تاہم اس کے ساتھ ہی یورپی ممالک کمیشن کے فلیگ شپ منصوبوں سے الگ رہتے ہوئے دفاعی خلا کو پُر کرنے کے لیے ممالک کے مشترکہ اتحاد بھی تشکیل دے رہے ہیں، جن کے تحت انسدادِ ڈرون نظام جیسے منصوبے مشترکہ طور پر تیار اور خریدے جا رہے ہیں۔
ایک دوسرے یورپی اہلکار نے کہا،
“اصل کام رکن ممالک ہی کریں گے۔”
کمیشن نے تجویز دی تھی کہ فلیگ شپ منصوبوں کو “یورپی مشترکہ دفاعی منصوبے” قرار دے کر انہیں یورپی یونین کی فنڈنگ کے لیے اہل بنایا جائے، تاہم حکام کے مطابق ممالک کے اتحاد بھی ایسے منصوبے پیش کر سکتے ہیں، اور فنڈنگ پر حتمی فیصلہ رکن ممالک ہی کریں گے۔
ابتدائی ڈرون وال منصوبے کو جنوبی اور مغربی یورپی ممالک کی جانب سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، جن کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ مشرقی یورپ پر حد سے زیادہ توجہ مرکوز کرتا ہے، جبکہ ڈرون خطرہ پورے براعظم کو درپیش ہے۔ اگرچہ بعد ازاں کمیشن نے منصوبے کو پورے یورپ پر محیط نیٹ ورک کی شکل دی، مگر یورپی یونین کے اس کردار پر شکوک برقرار ہیں۔




