ترکی نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ وہ روس سے خریدے گئے S-400 فضائی دفاعی نظام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا—اگرچہ واشنگٹن کے ساتھ F-35 پروگرام میں واپسی سے متعلق مذاکرات میں نئی پیش رفت دیکھنے میں آ رہی ہے۔ یہ مؤقف نیٹو کے اندرونی اتحاد، مستقبل کے فضائی طاقت کے توازن اور عالمی دفاعی سفارت کاری کے لیے ایک بڑے امتحان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد امریکہ–ترکی تعلقات میں نرم لہجہ پیدا ہوا ہے اور دونوں ممالک اس امید کا اظہار کر رہے ہیں کہ کئی سال سے منجمد تنازعات اب برف پگھلنے کی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔ تاہم اس مثبت ماحول کے باوجود S-400 وہ واحد مسئلہ ہے جس پر واشنگٹن کی قانونی اور عسکری پوزیشن تبدیل نہیں ہو سکتی۔
ترک وزارت دفاع نے ایک پریس بریفنگ میں کہا:
“S-400 نظام سے متعلق کوئی نئی پیش رفت نہیں ہوئی۔”
یہ بیان بظاہر معمول کا تھا، لیکن اس کے اثرات گہرے تھے—ترکی نے صاف بتا دیا کہ وہ دنیا کے جدید ترین F-35 پروگرام کی دوبارہ شمولیت کے بجائے روسی نظام کو رکھنے کو ترجیح دیتا ہے۔
اسی دوران ترک حکام مسلسل یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ واشنگٹن کے ساتھ پابندیاں ختم کرنے اور F-35 رکاوٹیں ہٹانے پر رابطے جاری ہیں۔ وزیرِ خارجہ حکان فیدان نے دعویٰ کیا کہ پابندیوں کا حل “بہت جلد” نکل آئے گا، جس نے سیاسی حلقوں اور عالمی دفاعی مارکیٹوں میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
مگر اس امید کے باوجود امریکی مؤقف تبدیل نہیں ہوا۔
امریکی سفیر ٹام بیرک نے دوٹوک کہا:
“امریکی قانون کے مطابق، F-35 پروگرام میں واپسی کے لیے ترکی کو S-400 نظام کا رکھنا یا چلانا بند کرنا ہو گا۔”
یہ قانونی شرط کسی بھی سیاسی مفاہمت کو محدود کرتی ہے اور مسئلے کے حل کی اصل رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
یہ تنازع اہم کیوں ہے؟ نیٹو کے لیے سب سے بڑا آزمائشی لمحہ
S-400 اور F-35 تنازعہ صرف دو ہتھیاروں کا نہیں بلکہ نیٹو کے اندر اسٹریٹجک خودمختاری اور اتحاد کی یکسانیت کے درمیان کھینچاتانی کا معاملہ ہے۔
امریکی اور نیٹو تحفظات کی بنیادی وجوہات
- F-35 کا پورا ڈیزائن ریڈار سے بچ نکلنے اور گھنے ڈیٹا نیٹ ورک پر چلتا ہے۔
- S-400 کا ریڈار ممکنہ طور پر F-35 کے سگنیچر کا تجزیہ کر سکتا ہے، جو نیٹو کے لیے قابلِ قبول خطرہ نہیں۔
- ترکی کا اصرار کہ S-400 نیٹو سسٹمز سے “منسلک نہیں” ہونے کے باوجود، نیٹو اسے مستقل رسک سمجھتا ہے۔
دوسری طرف، ترکی S-400 کو قومی خودمختاری، خطے کی سکیورٹی اور روس کے ساتھ توازن کا اہم حصہ سمجھتا ہے۔
S-400 خریداری سے F-35 اخراج تک: مسئلے کی اصل تاریخ
ترکی نے 2017 میں S-400 کا 2.5 ارب ڈالر کا معاہدہ روس سے کیا۔
اس فیصلے کے پس منظر میں:
- امریکہ سے Patriot نظام کی بارہا ناکامی
- ٹیکنالوجی ٹرانسفر پر اختلافات
- شام اور مشرقی بحیرہٴ روم میں بڑھتے خطرات
شامل تھے۔
2019 میں S-400 کی ترسیل شروع ہوتے ہی امریکہ نے:
- ترکی کو F-35 پروگرام سے نکال دیا
- CAATSA کے تحت پابندیاں لگا دیں
- ترک کمپنیوں کو F-35 سپلائی چین سے ہٹا دیا — جس سے امریکہ کو تقریباً 600 ملین ڈالر کا اضافی خرچ برداشت کرنا پڑا۔
ترکی پہلے ہی F-35 پروگرام میں ایک ارب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کر چکا تھا اور 100 طیارے خریدنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
صدر ایردوان نے فیصلے کو “ناانصافی” قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ S-400 ہر صورت ملک میں رہے گا۔
نیٹو کے لیے اسٹریٹجک پیچیدگیاں
ت%D




