تمام تر رکاوٹوں کے باوجود پی ٹی ایم نے چار افراد کی قربانی دیکر بظاہر اپنے زور بازو سے گرینڈ جرگہ کے انعقاد کا معرکہ سر کر لیا، ہزیمت کو چُھپانے کی خاطر خود صوبہ کے چیف ایگزیکٹیو کو مرکز گریز گرینڈ جرگہ کی میزبانی کی ذمہ داری لیکر وفاق کو پی ٹی ایم پر عائد پابندیوں کی گرہ کشائی کرنا پڑی ۔ قبل ازیں وفاقی حکومت نے پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی عائد کرکے اسے کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کر دیا تھا۔
پچھلی اتوار کو وزارت داخلہ کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ قومی سلامتی کے منافی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی پاداش میں پی ٹی ایم پہ پابندی لگائی گئی ہے ۔ ہمارے متنوّع قومی وجود کے اندر پشتون ایسا نسلی گروہ ہے جو پاک،افغان بارڈر پر ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف آباد ہونے کی وجہ سے پچھلی پون صدی کے دوران جنوبی ایشیا میں جیو پالیٹیکس کی پیچیدہ حرکیات کا بنیادی عُنصر بنا رہا ۔
پیر روشان اور مُلا پاوندہ کی تحریکوں سے قطع نظر برٹش انڈیا میں پہلی بار سنہ 1936سے لیکر 1947 تک جب مرزاعلی عرف فقیر ایپی کی قیادت میں آزاد پشتونستان کی وہ مسلح تحریک، جو بلآخر افغان بادشاہ ظاہر شاہ کے خلاف بغاوتوں پہ منتج ہوئی ،کی متحدہ ہندوستان کے حامی عظیم پشتون لیڈر خان عبدالغفار خان نے مخالفت کرتے ہوئے اسے انگریزوں کی پراکسی قرار دیا تھا ۔حیرت انگیز طور پہ اپنی زندگی کے آخری چھ سالوں(1944/1950) میں فقیر ایپی بھی اِسی طرح افغانستان کے سابق بادشاہ امان اللہ غازی کی بحالی کے لئے سرگرداں رہے،جس طرح آج پی ٹی ایم اشرف غنی کی واپسی کی متمنی ہے ۔ فقیر ایپی کی جدوجہد بارے سابق ہوم سیکریٹری سید مظہرعلی شاہ کی کتاب (Saint warrior ) جس پہ صوبائی حکومت نے پابندی عائد کر رکھی ہے ،نہایت اہم دستاویز ہے ۔ تاہم تقسیم ہند کے فوری بعد اگست1948 میں سرد جنگ کی حرکیات کے باعث این ڈبلیو ایف پی(خیبر پختون خوا)کے وزیراعلی خان عبدالقیوم خان کے حکم پہ چارسدہ کے بابڑا گراونڈ میں خان عبدالغفار عرف باچا خان کی سرخ پوش تحریک کے کارکنوں کے پولیس کے ہاتھوں قتل عام کے بعد باچا خان بھی قومی سیاست سے مایوس ہو کر فقیر ایپی کی طرح پشتونوں کے ”حقوق “کےلئے آزاد وطن کے مطالبات کی طرف پلٹ آئے ، چنانچہ 1960/70کی دہائی تک انکی سرخ پوش تحریک ( جو بعدازاں نیشنل عوامی پارٹی اور اب عوامی نیشل پارٹی) نے افغان حکومتوں کی ایماءپہ آزاد پشتونستان کے لئے افغانستان کے جھنڈے اٹھا کر ” لر وبر یو افغان“ کے نعروں کی گونج میں نسلی عصبیت پہ مبنی مزاحمت شروع کرنے کی کوشش کی تھی،اس حوالہ سے سرخ پوش تحریک کے نمایاں کارکن جمعہ خان صوفی کی کتاب ”فریب ناتمام“ قصّہ حمام باد گرد کے طلسم ہوش ربا کی حیثیت رکھتی ہے ۔
تاہم 1979 میں کابل میں سوویت یونین کی فوجی مداخلت کے بعد دو بڑی عالمی قوتوں کی کشمکش کے دوران امریکی مقتدرہ نے پاک افغان بارڈر کے اطراف مقدس جہادی کلچر کی آبیاری کے ذریعے نسلی تحریکوں کو ٹھکانے لگا دیا ، انہی جہادی تنظیموں کی طویل مزاحمتی جدوجہد کے نتیجہ میں1988 میں کابل سے سوویت یونین کے انخلاءکے بعد افغان معاشروں کو وسیع پیمانے کی نقل مکانی اور 7 سالوں پہ محیط مہیب خانہ جنگیوں کا مزہ چکھایا گیا ، آخرکار 1995 میں اسی غیرمعمولی انتشار کی کوکھ سے جنم لینے والے افغان طالبان نے افغانستان میں سخت گیر مذہبی حکومت کے ذریعے امن قائم کرنے کے علاوہ کابل کو القاعدہ جیسی عالمی مزاحمتی تحریکوں کا مرکز بنا کر مڈل ایسٹ سمیت پوری دنیا میں پُرتشد کاروائیوں کو فروغ دینا شروع کر دیا ۔ چنانچہ نائن الیون کے بعد القاعدہ کی پُرتشدد فعالیت کو جواز بنا کر امریکہ نے طالبان کی گوشمالی کے لئے کابل میں نیٹو فورسیسز اتار کر پورے جنوبی ایشیا کو وقف اضطراب کر دیا ۔
تین سال کی پُراسرار خاموشی کے بعد 2003 میں جہادی تنظیموں نے نیٹو فورسز کے خلاف مسلح مزاحمت شروع کرکے بیس سالوں پہ محیط طویل گوریلا جنگ کے ذریعے ایک بار پھر افغانستان کا اقتدار حاصل کر لیا مگر دو دہائیوں پہ پھیلی اس مزاحمتی جدلیات نے پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا کے انتظامی اور بنیادی ڈھانچہ کو منہدم کرنے کے علاوہ ایک مربوط قبائلی تمدن کو اجاڑ کے رکھ دیا ، تشدد کی مہیب لہریں اُن سینکڑوں قبائلی عمائدین کو نگل گئیں،جن کا کبریائی لہجہ کبھی اُس قبائلی کلچر کا شکوہ سمجھا جاتا تھا،جسے صدیوں سے ایف سی آر قوانین کے تحت ریگولیٹ کیا جاتا رہا ۔ ادھر کابل سے امریکی انخلاءسے قبل عالمی مقتدرہ کے تقاضوں کی تکمیل کی خاطر ہماری ریاست نے قبائلی ایجنسیوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کرکے قبائل کو قومی زندگی کے اجتماعی دھارے میں شامل کرنے کی خاطر انہیں اجتماعی ذمہ داری کے اُن قوانین سے آزاد کر دیا، جو انہیں اجتماعی مفادات(نقات) پہ منحصر ایک قسم کے نفسیاتی نظم و ضبط میں مربوط رکھتے تھے ۔
قبل ازیں 2013 میں صدر اوباما کی طرف سے افغانستان سے امریکی انخلا کے اصولی فیصلہ کے بعد جب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کی امارات اسلامی کا دفتر کھولا گیا تو اس کے ساتھ ہی 2014 میں نمودار ہونے والی ٹی ٹی پی طویل امریکی جنگ سے متاثرہ نسلی پشتونوں کے حقوق کی وکالت کرتی نظر آئی ۔ اگست 2021 میں کابل سے امریکی انخلا کے بعد قبائلی نوجوانوں کی مسلح تنظیم ٹی ٹی پی نے پاکستان کے اندر تشدد اور خون ریزی کی ہولناک مہمات کے ذریعے پولیس اور سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کے علاوہ مملکت کے انتظامی اور بنیادی ڈھانچے سمیت خطہ کی متنوع تہذیب و ثقافت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا
۔ ٹی ٹی پی سے نمٹنے کی خاطر ہماری مقتدرہ نے مغربی بارڈر سے جڑے قبائلی علاقوں کے علاوہ خیبرپختونخوا کے بندوبستی اضلاع میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشنز شروع کرکے شہریوں کی جبری نقل مکانی اور فوجی چیک پوسٹوں پر بنیادی آزادیوں کی تحدید کے ذریعے رائے عامہ کو بھڑکا دیا ۔ دریں اثناء مبینہ طور پر جبری گمشدگیوں اور حقوق کے کارکنوں اور نسلی رہنماوں کے ماورائے عدالت قتل جیسے الزامات کے علاوہ شہری آبادیوں میں فوج کی طویل موجودگی کے مضمرات سے جنم لینے والی پی ٹی ایم جیسی موہوم تحریک نے ملک کی طاقتور فوج پر کڑی تنقید کے ذریعے دیکھتے ہی دیکھتے ایسی علاقائی سیاسی قوت کی صورت اختیار کر لی جس نے روایتی پشتون قوم پرست جماعتوں کے علاوہ جے یو آئی جیسی مذہبی طاقت کو بھی قبائلی علاقوں کی سیاست سے آوٹ کر دیا ۔ بظاہر ریاست سے بہتر تحفظ مانگنے کے نعروں کی گونج میں پی ٹی ایم جیسی غیر روایتی تنظیم نے اپنے عروج پر دسیوں ہزار لوگوں کو بڑے پیمانے پر مزاحمتی ریلیوں کی طرف کھینچ کر قبائلی تمدن کی حرکیات بدل ڈالیں ۔ یوں ہمارے ریاستی اداروں کی شاطرانہ سرد مہری کے نتیجہ میں اب یہ غیرسیاسی تحریک رفتہ رفتہ افغانستان کے جھنڈوں کے جلو میں” لر وبر یو افغان“ کے نعروں کی گونج کے ساتھ ایسے مرکز گریز رجحانات میں ڈھلتی جا رہی ہے جو بلآخر خطہ میں جغرافیائی تبدیلیوں سمیت افغانستان میں طالبان کی مذہبی استبدادیت کے خاتمہ پہ منتج ہو سکتی ہے۔
افغانستان کے انہی ترنگے جھنڈوں کی حامل، شمال سے احمد شاہ مسعود، امر صالح اور اشرف غنی کی قیادت میں ابھرنے والی مسلح قومی مزاحمتی تحریک (National resistance movement ) سے بہترین کوارڈینشن کے ساتھ جنوب مشرق سے ابھرتی ہوئی پشتون تحفظ موومنٹ بدلتے حالات میں فقیر ایپی اور باچا خان کی آزاد پشتونستان تحریکوں کی بازگشت دکھائی دیتی ہے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں رہا کہ ماضی میں عالمی طاقتوں کی سرد جنگ کے دوران ہماری مقتدرہ نے استعماری سرمایہ سے یہاں کیمونسٹ نظریات کی حامل سیاسی جماعتوں کو کچل کر مذہبی سیاست اور جہادی کلچر کو پروان چڑھایا لیکن آج تیزی سے بدلتے عالمی تناظر میں مغربی طاقتیں مذہبی جماعتوں کے سیاسی کردار کو محدود اور نسلی تحریکوں کی فعالیت کو بڑھانے میں سرگرداں نظر آتی ہیں،
بادی النظری میں یہی لگتا ہے کہ عالمی طاقتیں حالیہ پراڈائم شفٹ کے دوران خاص طور پر جنوبی ایشیا میں پشتون/بلوچ نسلی گروہوں اور سیکولر جماعتوں کے لئے گنجائش بڑھانے کی کوشش کریں گی ۔ آج اگر ہم پی ٹی ایم تحریک کو متذکرہ بالا تاریخی تناظر میں رکھ کر دیکھیں تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ عالمی طاقتوں کی ایما پر ہماری مقتدرہ بھی طریقہ کار کے اُنہی ہتھکنڈوں کے ذریعے پی ٹی ایم کو پروموٹ کرکے افغانستان میں وسیع تر قومی حکومت کے قیام کی راہ ہموار بنانے کی خاطر طالبان گورنمنٹ کو ٹریپ کرنے کی سکیم کا حصہ نظر آتی ہے ، جِن طریقوں سے برٹش گورنمنٹ نے فقیرایپی کی تحریک کو مقبول بنانے کی خاطر افغانستان کی ظاہر شاہ حکومت کو ٹریپ کر لیا تھا ۔
شاید اسی لئے عالمی اداروں کی فنڈنگ سے چلنے والی،انسانی حقوق کمشن جیسی وہ تمام تنظمیں جو غزہ،شام، عراق اور لیبیا میں ہزاروں معصوم بچوں، خواتین اور شہریوں کی نسل کشی پہ خاموش رہیں، نے پی ٹی ایم کو کالعدم قرار دینے کے حکومتی فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حقوق پر مبنی تحریک جس نے کبھی تشدد کا سہارا نہیں لیا اور ہمیشہ آئین کے فریم ورک کو اپنے مقصد کی وکالت کے لیے استعمال کرتی رہی پر پابندی کا یہ انتہائی فیصلہ شفاف نہیں۔
ٹریک ریکارڈ بھی یہی ہے کہ جنگ عظیم دوم کے بعد سے امریکہ نے دنیا بھر کی کمزور مملکتوں کے اندورنی معاملات میں مداخلت کے لئے انسانی حقوق کی تنظمیوں کو ٹول کے طور پر استعمال کیا ۔
Discover more from Defence Talks Urdu | Defense News Military Pictures
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
اس میں کوئی شک نہیں اسلم اعوان صاحب نے تاریخ کے وہ اوراق کھولے جو اکثر لوگوں کو یاد نہیں رہتے ۔ خصوصاً جوان نسل ۔ ہمارے صوبے پر نیشنلسٹ پارٹی جن کا ذکر لکھاری نے بھی کیا۔ یہ جماعت اے این پی ھے جو پختون کی نمائندگی کرتی آرہی ھے نے بھی 1980 کی دہائی میں پاکستان کے جھنڈوں کی بے توقیری کی بلکہ یہ نعرے لگائے پاکستان بٹ کے رہے گا۔ یہ نعرے میں نے طلب علمی کے زمانے کراچی میں سنے۔ اس کے پیچھے بھی افغانستان کی لابی کام کر رہیں تھیں۔ اس کے بعد ان کا بھرپور مطالبہ تھا کہ صوبے کا نام پختونخوا رکھا جائے غالباً ایم ایم کے دور میں اس صوبے کا نام تبدیل کردیا گیا۔ اب میری سمجھ میں یہ بات سمجھ سے بالاتر ھے کہ دنیا کے بااثر ممالک پختونوں کے کتنے حصے بخرے کرنا چاہتی ھیں۔