ہفتہ, 20 دسمبر, 2025

تازہ ترین

متعلقہ تحریریں

یمن کی جنگ: جنوبی یمن میں کیا ہو رہا ہے اور یہ کیوں اہم ہے؟ — ایک جائزہ

یمن، جو پہلے ہی ایک دہائی سے خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے، ایک بار پھر ایک نئے اور نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ حالیہ دنوں میں جنوبی ٹرانزیشنل کونسل (STC) سے وابستہ مسلح گروہوں نے ملک کے جنوبی اور تیل سے مالا مال صوبے حضرموت میں بڑی پیش قدمی کرتے ہوئے اہم شہر سیئون پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ پیش رفت یمن کی جنگ کو ایک نئی سمت میں دھکیل سکتی ہے۔

یمن کی تقسیم کی جڑیں کہاں ہیں؟

یمن کی تاریخ طویل عرصے تک شمال اور جنوب میں بٹی رہی ہے۔

  • جنوب میں برطانیہ نے انیسویں صدی کے وسط سے عدن پر حکمرانی کی
  • 1967 میں جنوبی یمن آزاد ہوا اور بعد ازاں دنیا کی واحد عرب کمیونسٹ ریاست بنا
  • شمالی یمن عثمانی سلطنت سے آزادی کے بعد ایک الگ ریاست کے طور پر ابھرا

دونوں یمن 1990 میں متحد تو ہو گئے، مگر اختلافات ختم نہ ہو سکے۔ 1994 میں جنوبی یمن نے علیحدگی کی ناکام کوشش کی، اور بالآخر 2014 میں حوثیوں کے قبضے کے بعد ملک مکمل خانہ جنگی میں داخل ہو گیا۔

جنوبی ٹرانزیشنل کونسل (STC) کون ہے؟

ایس ٹی سی 2017 میں وجود میں آئی اور اس کا مقصد جنوبی یمن کی علیحدہ ریاست کا قیام ہے۔
یہ تنظیم:

  • متحدہ عرب امارات کی حمایت یافتہ ہے
  • باضابطہ طور پر یمن کی تسلیم شدہ حکومت کا حصہ بھی ہے
  • عدن پر کنٹرول رکھتی ہے
  • صدارتی قیادت کونسل میں اس کے تین ارکان شامل ہیں

ایس ٹی سی خود کو جنوبی یمن کی واحد مؤثر نمائندہ قوت کے طور پر پیش کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں  غزہ میں فوج بھیجنے کا سوال: واشنگٹن کے دباؤ میں پاکستان مشکل فیصلے کے دہانے پر

حضرموت کیوں اہم ہے؟

حضرموت یمن کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہاں:

  • یمن کے تقریباً 80 فیصد تیل کے ذخائر موجود ہیں
  • سعودی عرب سے سرحد ملتی ہے
  • اہم تجارتی اور اسمگلنگ راستے گزرتے ہیں

اس صوبے پر کنٹرول کا مطلب ہے معاشی طاقت، جغرافیائی اثر و رسوخ اور سیاسی وزن۔

حضرموت میں پیش قدمی کیسے ہوئی؟

جنوری 2025 میں قبائلی اتحاد نے حضرموت کے چند تیل کے کنوؤں پر قبضہ کر لیا، جس سے بجلی بحران اور عوامی احتجاج شروع ہوا۔
اسی عدم استحکام کے دوران، 3 دسمبر کو ایس ٹی سی سے وابستہ حضرموت ایلیٹ فورسز نے ایک آپریشن کے تحت سیئون پر قبضہ کر لیا اور بعد ازاں صوبے کے بیشتر حصے پر کنٹرول حاصل کر لیا۔

قبائلی اتحاد کا کہنا ہے کہ ان کی پسپائی سعودی ثالثی کے تحت ہوئی، جو اس پیش رفت میں علاقائی طاقتوں کے کردار کی نشاندہی کرتی ہے۔

کیا یہ حوثیوں کے خلاف نیا محاذ ہے؟

ماہرین کے مطابق، نہیں۔
ایس ٹی سی کی موجودہ حکمتِ عملی حوثیوں کے خلاف براہِ راست جنگ نہیں بلکہ:

  • جنوبی یمن میں مکمل کنٹرول
  • ادارہ جاتی ڈھانچے کی تشکیل
  • مستقبل کے لیے سیاسی سودے بازی

حوثیوں کے خلاف کھلی جنگ ایس ٹی سی کے لیے خطرناک اور مہنگی ہو سکتی ہے۔

سعودی عرب اور یو اے ای کا کردار کیا ہے؟

سعودی عرب:

  • یمن کے ساتھ طویل سرحد رکھتا ہے
  • جنگ سے نکلنے اور سرحدی سلامتی چاہتا ہے
  • ایک مستحکم جنوبی یمن کو قبول کر سکتا ہے

متحدہ عرب امارات:

  • ایس ٹی سی کا سب سے بڑا حمایتی
  • بندرگاہوں، بحری راستوں اور ساحلی علاقوں میں دلچسپی رکھتا ہے
  • باب المندب جیسے اسٹریٹجک مقامات پر اثر و رسوخ چاہتا ہے
یہ بھی پڑھیں  پاکستان کے J-10 طیارے نے دو بھارتی طیاروں کو گرایا، امریکی حکام کی تصدیق

دونوں ممالک براہِ راست تصادم سے بچنا چاہتے ہیں۔

انسانی بحران کہاں کھڑا ہے؟

یمن بدستور دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک ہے:

  • 4 کروڑ سے زائد آبادی
  • 45 لاکھ سے زائد بے گھر افراد
  • لاکھوں افراد شدید غذائی قلت کا شکار
  • سیلاب، بیماری اور غربت نے حالات مزید خراب کر دیے ہیں

سیاسی تبدیلیاں اگر استحکام نہ لائیں تو انسانی بحران مزید گہرا ہو سکتا ہے۔

آگے کیا ہو سکتا ہے؟

ایس ٹی سی کی فورسز اب یمن کے مشرقی صوبے المہرہ تک پہنچ چکی ہیں۔
ماہرین کے مطابق:

  • جنوبی یمن میں ایک ڈی فیکٹو علیحدہ ریاست ابھرتی دکھائی دے رہی ہے
  • شمال میں حوثی، جنوب میں ایس ٹی سی — یمن عملی طور پر تقسیم ہو سکتا ہے
  • سعودی عرب اور یو اے ای سفارتی دباؤ تک محدود رہیں گے

خلاصہ

یمن کی جنگ اب صرف اقتدار کی لڑائی نہیں رہی، بلکہ ریاست کے وجود کا سوال بن چکی ہے۔
حضرموت میں ایس ٹی سی کی پیش قدمی اس بات کا اشارہ ہے کہ یمن کا مستقبل ممکنہ طور پر دو حصوں میں بٹ سکتا ہے — ایک حقیقت جو زمینی حقائق تیزی سے مسلط کر رہے ہیں۔

سعدیہ آصف
سعدیہ آصفhttps://urdu.defencetalks.com/author/sadia-asif/
سعدیہ آصف ایک باصلاحیت پاکستانی استاد، کالم نگار اور مصنفہ ہیں جو اردو ادب سے گہرا جنون رکھتی ہیں۔ اردو ادب میں ماسٹرز کی ڈگری کے حامل سعدیہ نے اپنا کیریئر اس بھرپور ادبی روایت کے مطالعہ، تدریس اور فروغ کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ 2007 سے تعلیم میں کیریئر کے آغاز کے ساتھ انہوں نے ادب کے بارے میں گہرا فہم پیدا کیا ہے، جس کی عکاسی ان کے فکر انگیز کالموں اور بصیرت انگیز تحریروں میں ہوتی ہے۔ پڑھنے اور لکھنے کا شوق ان کے کام سے عیاں ہے، جہاں وہ قارئین کو ثقافتی، سماجی اور ادبی نقطہ نظر کا امتزاج پیش کرتی ہے، جس سے وہ اردو ادبی برادری میں ایک قابل قدر آواز بن گئی ہیں ۔

جواب دیں

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا

مقبول ترین