روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے یورپی یونین کو خبردار کیا ہے کہ اگر منجمد روسی اثاثوں کو یوکرین کے لیے استعمال کیا گیا تو یہ اقدام “دن دہاڑے ڈکیتی” کے مترادف ہوگا، جس کے سنگین نتائج نہ صرف یورپ بلکہ عالمی مالیاتی نظام کے لیے بھی ہوں گے۔
جمعے کو سالانہ براہِ راست سوال و جواب کے سیشن اور پریس کانفرنس کے دوران پیوٹن نے کہا کہ مغربی ممالک اگر روس کے اثاثے ضبط کرتے ہیں تو اس سے یوروزون پر اعتماد مجروح ہوگا، کیونکہ بہت سے ممالک، خصوصاً تیل پیدا کرنے والے ممالک، اپنے زرِمبادلہ کے ذخائر یورپ میں رکھتے ہیں۔
“اگر ایک بار یہ روایت قائم ہو گئی تو مختلف بہانوں کے تحت اسے دہرایا جا سکتا ہے،” پیوٹن نے کہا۔
انہوں نے واضح کیا کہ روس عدالتوں کے ذریعے اپنے مفادات کا دفاع کرے گا اور ایسے قانونی فورمز تلاش کرے گا جو سیاسی دباؤ سے آزاد ہوں۔
یوکرین پر امن مذاکرات کا مؤقف
یوکرین جنگ کے حوالے سے پیوٹن نے کہا کہ فی الحال روس کو کیف کی جانب سے واضح سنجیدگی نظر نہیں آ رہی، تاہم کچھ اشارے ایسے ضرور ہیں جو بات چیت کی خواہش کو ظاہر کرتے ہیں۔
“ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ ہم اس تنازع کو پرامن طریقے سے ختم کرنے کے لیے تیار ہیں،” پیوٹن نے کہا، لیکن ساتھ ہی انہوں نے زور دیا کہ کسی بھی مذاکرات میں تنازع کی بنیادی وجوہات کو حل کرنا ضروری ہوگا۔
محاذِ جنگ کی صورتحال
روسی صدر نے دعویٰ کیا کہ کورسک ریجن میں پیش رفت کے بعد جنگی محاذ پر اسٹریٹجک برتری روسی افواج کے ہاتھ میں آ چکی ہے۔
“ہماری افواج پورے محاذ پر آگے بڑھ رہی ہیں، کہیں تیزی سے اور کہیں آہستہ، مگر ہر سمت میں دشمن پسپا ہو رہا ہے،” پیوٹن نے کہا۔
روسی معیشت اور افراطِ زر
معاشی صورتحال پر بات کرتے ہوئے پیوٹن نے کہا کہ روس کی جی ڈی پی شرح نمو تقریباً ایک فیصد ہے، جو ان کے بقول حکومت اور مرکزی بینک کی جانب سے افراطِ زر کو قابو میں رکھنے کی دانستہ پالیسی کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ افراطِ زر کو 6 فیصد سے نیچے لانے کا ہدف بڑی حد تک حاصل ہو چکا ہے اور سال کے اختتام تک یہ 5.7 سے 5.8 فیصد کے درمیان رہنے کی توقع ہے۔
روسی اثاثے اور یورپی یونین
واضح رہے کہ مغربی ممالک نے 2022 میں یوکرین جنگ کے بعد تقریباً 300 ارب ڈالر کے روسی مرکزی بینک اثاثے منجمد کیے تھے، جن میں سے زیادہ تر بیلجیم میں قائم ادارے یوروکلیئر میں رکھے گئے ہیں۔ یورپی یونین ان اثاثوں کو یوکرین کے لیے استعمال کرنے کے امکانات پر غور کر رہی ہے، تاہم حالیہ اجلاس میں اس پر اتفاق نہیں ہو سکا۔
پیوٹن نے ایک بار پھر زور دیا کہ
“چاہے وہ کچھ بھی کریں اور جیسے بھی کریں، انہیں یہ رقم آخرکار واپس کرنی پڑے گی۔”
لوگوں سے براہِ راست رابطہ
پریس کانفرنس کے دوران ایک بچے کے سوال کے جواب میں پیوٹن نے بتایا کہ وہ بعض اوقات بغیر سرکاری قافلے کے ماسکو کا دورہ کرتے ہیں تاکہ عوامی زندگی کو قریب سے دیکھ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ براہِ راست عوام سے بات چیت اور رائے عامہ کے جائزوں کے ذریعے بھی معلومات حاصل کرتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، پیوٹن کے بیانات روس کا وہی مؤقف دہراتے ہیں جس میں ایک طرف مغرب کو سخت پیغام دیا جا رہا ہے اور دوسری جانب مذاکرات کا دروازہ مشروط طور پر کھلا رکھا گیا ہے۔




