ماہرین کے مطابق چین کی جانب سے نومبر 2025 میں لانچ کیا گیا تیسرا ایئرکرافٹ کریئر ’فوجیان‘ چین کے پچھلے دونوں ایئرکرافٹ کریئرز سے کئی گنا زیادہ جدید اور طاقتور ہے اور اس پیش رفت سے بیجنگ مغربی بحرالکاہل میں امریکی بحری غلبے کو چیلنج کرنے کے اپنے ہدف کے قریب تر پہنچ چکا ہے۔
80 ہزار ٹن وزنی یہ جہاز تائیوان کے قریب واقع چینی صوبے کے نام پر رکھا گیا ہے اور اس پر بیک وقت 70 جنگی اور معاون طیارے موجود ہوسکتے ہیں جن میں فضا سے نگرانی اور دور تک حملے کی صلاحیت رکھنے والے طیارے بھی شامل ہوں گے۔
امریکہ جیسی صلاحیت
فوجیان چین کا پہلا جہاز ہے جس میں فلیٹ فلائٹ ڈیک اور جدید برقی مقناطیسی کیٹا پلٹ نصب ہیں۔ اس نظام کے ذریعے زیادہ بھاری طیارے، زیادہ اسلحہ اور زیادہ ایندھن کے ساتھ لانچ کیے جا سکتے ہیں۔ اب تک یہ صلاحیت عملاً صرف امریکی بحریہ کے پاس تھی۔
ماہرین کے مطابق اس ٹیکنالوجی کے بعد چین کے کیریئر اسٹرائیک گروپس ایک نئی سطح پر داخل ہو رہے ہیں۔
شی جن پنگ کا عسکری ویژن
چین کے سرکاری میڈیا نے فوجیان کو بحریہ کی تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل قرار دیا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق اس نظام کی منظوری چینی صدر شی جن پنگ نے ‘ذاتی طور پر’ دی، جو افتتاحی تقریب میں فوجی وردی میں شریک بھی ہوئے۔
شی جن پنگ بارہا اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ ’بحرالکاہل امریکہ اور چین دونوں کے لیے کافی وسیع ہے،‘ جو ان کے برابر کی طاقت بننے کے وژن کی طرف اشارہ سمجھا جاتا ہے۔
امریکی ردعمل اور علاقائی تشویش
واشنگٹن کے ماہرین کا کہنا ہے کہ فوجیان بحرالکاہل کے مشرقی زون میں تائیوان کے دفاعی تناظر کے لیے براہِ راست خطرہ بن سکتا ہے، اگرچہ جاپان، جنوبی کوریا، گوام اور فلپائن میں امریکی فوجی موجودگی کسی بھی جارحیت کی صورت میں جوابی صلاحیت رکھتی ہے۔
اس کے مقابلے میں امریکہ کے تمام 11 ایئرکرافٹ کریئرز جوہری توانائی پر چلتے ہیں اور وزن میں فوجیان سے بڑے ہیں۔ چینی بحری اڈوں کی محدود رسائی اور ڈیزل انجن نظام کی وجہ سے فوجیان کو بار بار رسد درکار ہوگی جس سے اس کی آپریشنل رینج محدود رہ سکتی ہے۔
بحری آرمز ریس
اگرچہ جدید میزائل ٹیکنالوجی نے ایئرکرافٹ کریئرز کی کلاسیکل اہمیت کو کسی حد تک کم کیا ہے، تاہم چین پہلے ہی اپنے چوتھے کیریئر کی تعمیر شروع کر چکا ہے اور مستقبل میں جوہری توانائی سے چلنے والے جہازوں کی طرف بڑھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس صورتحال کے نتیجے میں امریکہ اور چین کے درمیان بحری اسلحہ جاتی دوڑ تیز ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں، اور طاقت کے توازن کے لیے عالمی سطح پر نئی کشمکش جنم لے سکتی ہے۔




