جمعہ, 11 جولائی, 2025

تازہ ترین

متعلقہ تحریریں

دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر ہے ؟

مڈل ایسٹ میں تیزی سے بدلتی صورت حال بارے سرِدست کوئی پیشگوئی تو ممکن نہیں تاہم بظاہر یہی سمجھ لیا گیا کہ حسن نصراللہ کی شہادت اور لبنان میں حزب اللہ کے خلاف تباہ کن حملوں کے ذریعے اسرائیل نے غزہ جنگ میں بالادستی حاصل کر لی اور اب وہ ایران میں عسکریت پسند گروپ کے”حمایتیوں“کے ساتھ براہ راست تصادم کی طرف جائے گا لیکن اسرائیل کی بے لگام جارحیت اُس کی حربی ناکامیوں کا غبار نظر آتی ہے ، اگر ہمارا اندازہ درست ہے تو پھر صیہونی قوتیں دنیا کو تیسری عالمی جنگ کا مزہ چکھانے کی کوشش ضرور کریں گی۔

مغربی ماہرین بھی یہی کہتے ہیں کہ لبنان میں تازہ اسرائیلی جارحیت نے علاقائی طاقت کی حرکیات میں”ٹیکٹونک تبدیلیوں“ کی راہ ہموار بنا دی، یعنی وہ اب محسوس کرتے ہیں کہ حزب اللہ اسرائیل کے لئے کوئی خطرہ نہیں رہی،اگرچہ امریکی حکام نے اسرائیل کو ایران اور لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ بڑھتے تنازعہ میں کمی لانے کا کہا تاہم نیتن یاہو کی فوجی حکمت عملی کو کنٹرول کرنے کی امریکی صلاحیت محدود ہونے کی وجہ سے منگل کے ایرانی میزائل حملوں کے جواب میں اسرائیل براہ راست ایران کو نشانہ بنا کر کسی بڑی جنگ کی شروعات کر سکتا ہے ۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ہفتے کے روز کہا کہ حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کا قتل خطہ کے لیے طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے کی طرف پہلا قدم ثابت ہو گا یعنی اسرائیل کے رہنما اِسے مشرق وسطیٰ میں جغرافیائی تشکیل نو کے لیے ایک موقع کے طور پر دیکھ رہے ہیں تاہم اسرائیل کی مکمل فتح کی توقع مضحکہ خیز ہے،جو لوگ کامل تسخیر کے خواہشمند ہیں انہیں پچھتاوا ہو گا ۔

یہ بجا کہ 17 ستمبر کے بعد سے، اسرائیل نے لبنان میں ایران کے حمایت یافتہ عسکریت پسند گروپ کو ایک کے بعد ایک جسمانی دھچکوں سے دوچار کیا ، پہلے پیجر اور واکی ٹاکی دھماکے، پھر جنوبی بیروت پر سفاکانہ فضائی حملے جس میں سینئر کمانڈر ابراہیم عقیل کے مارے جانے سمیت تین دن کی  بمباری میں کم و بیش دو ہزار انسان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور جمعہ کی شام تک جب،حسن نصراللہ بم دھماکہ میں مارا گیا اُس کے بعد گویا حزب اللہ کی پوری اعلی قیادت موت کی وادی میں اتار دی گئی لیکن اس سب کے باوجود غزہ بلکہ اسرائیل کے اندر اب بھی مزاحمت جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں  افغانستان کے اندر کالعدم ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر پاکستانی طیاروں کی بمباری سے 46 افراد ہلاک ہوگئے، ترجمان افغان طالبان

ایک طرف حالیہ تاریخ اسرائیلی رہنماوں کے لیے تلخ اسباق کے سوا کچھ نہیں ، دوسرے لبنان اور مشرق وسطیٰ میں جو لوگ عمومی طور پر ٹیکٹونک تبدیلیوں کے لیے بلند عزائم سے سرشار ہیں،انہیں پلٹ کر ذرا ماضی کے دریچوں میں بھی جھانکنا چاہئے۔ جون 1982 میں، اسرائیل نے جب فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کو کچلنے کی خاطر لبنان پر حملہ کیا ،اس وقت بھی اس نے بیروت میں عیسائی اکثریتی حکومت قائم کرنے اور شامی افواج کو ملک سے باہر دھکیلنے کی امیدیں باندھی تھی مگر وہ یہ تینوں اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ۔ البتہ، لبنان میں امریکی معاونت سے ایسا معاہدہ کرانے میں ضرور کامیاب ہوا جس کے تحت فلسطینی مسلح گروہوں کو ملک چھوڑنے پر آمادہ کیا گیا تھا ، جس نے فلسطینیوں کو تیونس، یمن اور دیگر جگہوں پر جلاوطنی پر مجبور کیا لیکن پی ایل او کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کی قومی امنگوں کو کچلنے کا مشن ناکام رہا۔

صرف پانچ سال بعد، غزہ میں پہلی فلسطینی انتفاضہ پھوٹ کر پورے مغربی کنارے تک پھیل گئی اور ظلم و بربریت کی طویل تادیب کے باوجود آج بھی غزہ میں فلسطینی اتنے ہی ڈٹے ہوئے ہیں جتنے وہ پہلے دن اسرائیلی قبضے کو مسترد کرنے کے لئے پُرعزم تھے ۔1982 میں حملے کے وقت لبنان میں اسرائیل کا اہم اتحادی بشیر الجمائل، جو میرونائٹ عیسائی ملیشیا کا رہنما تھا جسے پارلیمنٹ نے چُن لیا تھا لیکن عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی مشرقی بیروت میں بم دھماکے میں مار دیا گیا، بعدازاں اُس کے بھائی امین نے ان کی جگہ لی، امین کی قیادت میں مئی 1983 میں امریکی حوصلہ افزائی اور فعال شمولیت کے ساتھ لبنان اور اسرائیل نے معمول کے دو طرفہ تعلقات کے قیام کے لئے معاہدے کر لیا مگر شدید مخالفت کے باعث فروری میں امین حکومت گر جانے کے ساتھ متذکرہ معاہدہ منسوخ کرنا پڑا۔

امریکہ، جس نے ستمبر 1982 کے صبرہ اور شاتیلا کے قتل عام کے بعد بیروت میں اپنی فوجیں اتاری تھیں، اکتوبر 1983 میں امریکی میرینز اور فرانسیسی فوج کی بیرکوں سے منسلک اس کے سفارت خانے پر دو بار بمباری کے بعد وہاں سے نکلنے پر مجبور ہوگیا جس کے نتیجہ میں لبنان کی خانہ جنگی دوبارہ شروع ہو کر چھ سال سے زائد عرصے تک جاری رہی۔ شامی افواج، جو 1976 میں عرب لیگ کے مینڈیٹ کے ساتھ ”ڈیٹرنس فورس“ کے طور پر لبنان میں داخل ہوئی تھیں، سابق وزیر اعظم رفیق الحریری کے قتل کے بعد 2005 تک وہاں موجود رہیں بلکہ 1982 کے اسرائیلی حملے کا سب سے اہم نتیجہ حزب اللہ کی پیدائش تھی، جس نے مسلسل ایسی ہولناک گوریلا جنگ چھیڑی جو اسرائیل کو جنوبی لبنان سے یکطرفہ انخلاء پر مجبور کر گئی۔

یہ بھی پڑھیں  شام کے بشار الاسد کازوال، اثرات لیبیا اور وسیع تر بحیرہ روم تک پھیل گئے

یوں پہلی بار کسی عرب فوجی قوت نے کامیابی کے ساتھ اسرائیل فوج کو پسپائی پہ مجبور کیا ۔ پی ایل او کے عسکریت پسندوں کے برعکس ، عرب سرزمین پر حزب اللہ جیسا نیا گروپ، ایران کی مدد سے، اس سے کہیں زیادہ مہلک اور موثر ثابت ہوا، جسے اسرائیل نے کامیابی کے ساتھ لبنان سے بھگا دیا تھا ۔2006 کی جنگ میں حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف مزاحمت جاری رکھی اور ازاں بعد ایران کی مدد سے بتدریج مضبوط ہوتی گئی ۔آج واضح طور پر امریکی انٹیلی جنس کی دراندازی کی بدولت اگرچہ حزب اللہ بوجوہ اپاہج اور بے ترتیبی کا شکار ہے لیکن پھر بھی، اسکے حتمی انجام بارے پیشگوئی قبل از وقت ہو گی ۔

لبنان اور اسرائیل کے علاوہ، عراق پر 2003 کے امریکی حملے کی مثال ہمارے سامنے ہے، امریکی حملہ کے نتیجہ میں عراقی فوج کی تسخیر کے بعد جیسے ہی امریکی افواج بغداد میں داخل ہوئیں، بش انتظامیہ نے یہ سمجھ لیا کہ صدام حسین کا زوال تہران اور دمشق میں استبدادی حکومتوں کے خاتمے کا باعث بنکر پورے خطے میں لبرل جمہوریتوں کی بہار لائے گا لیکن اس کے برعکس عراق پر امریکی قبضہ فرقہ وارانہ تشدد میں بدل گیا، جس میں امریکہ نے خود بھی خون اور خزانے کی قیمت ادا کی مگر عراق کے لوگوں نے اس سے کہیں زیادہ قیمتی جانیں گنوا دیں ۔ صدام حسین کے قتل نے ایران کو بغداد میں سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے دل تک اپنا اثر و رسوخ پھیلانے کا موقع دیا جس کے تدارک کے لئے افغانستان پر امریکی حملے کے نتیجہ میں بکھری ہوئی القاعدہ کو عراق میں سنی مثلث کی صورت میں دوبارہ منظم کرنا پڑا جو آخر کار شام اور عراق میں داعش کی خونخوار شکل میں نمودار ہوئی۔

۔2006 کی اسرائیل حزب اللہ جنگ کے دوران اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے کہا تھا کہ تمام خونریزی اور تباہی جس کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں، نئے مشرق وسطیٰ کی پیدائش کا دردِ زہ ہے لیکن جنگوں کے نتائج اُن کے دعوی کی تردید کرتے ہیں ۔ چنانچہ آج بھی ایسے لوگوں سے ہوشیار رہیں جو نئی صبح، نئے مشرق وسطیٰ کے طلوع اور خطے میں طاقت کے نئے توازن کی نوید سنا رہے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں ،لبنان مڈل ایسٹ کی کائنات اصغر کا بلیک ہول ہے جو سب کو غلط ثابت کر سکتا ہے کیونکہ یہ غیر متوقع نتائج کی سر زمین ہے ۔

یہ بھی پڑھیں  امن کوشش سے میزائل حملے تک، ایک ہفتے میں یوکرین تنازع کی رفتار میں نمایاں تیزی

اقوام متحدہ کے مطابق، پچھلے ایک سال کے بیشتر عرصے سے، لبنان کو مسلسل اسرائیلی بمباری کا سامنا کرنا پڑا جو کہ امریکی حمایت یافتہ مہمات کا حصہ تھی جس میں سینکڑوں معصوم انسان ہلاک اور دس لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے ۔ حالیہ دنوں میں یہ تنازعہ اُس وقت شدت اختیار کر گیا جب اسرائیلی فوج نے جنوبی لبنان میں اپنی زمینی فورس کو آزمایا تاہم 23 ستمبر سے اسرائیل نے پھر لبنان کے جنوب اور مشرق میں وادی بیکا پر فضائی حملوں پر توجہ مرکوز کر لی،صیہونی فضائیہ بیروت شہر کی حدود اور ضاحیہ جیسے مضافاتی علاقوں سمیت دیگر علاقوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔چنانچہ مشرق وسطیٰ کے کوآرڈینیٹر نے ایک بار پھر سلامتی کونسل کو خبردار کیا کہ دنیا پاتال کے دہانے تک آن پہنچی ہے ، وقت کی صرف ایک کروٹ اسرائیل،فلسطین تنازعہ کی سمت بدل سکتی ہے ۔، بین الاقوامی برادری، دیرنیہ تنازعہ کے خاتمہ، تمام قیدیوں اور یرغمالیوں کی غیر مشروط رہائی، غزہ تک محفوظ اور بلا روک ٹوک انسانی امداد کی رسائی کو یقینی بنانے کے لیے فوری قدم اٹھائے۔

مندوبین نے سلامتی کونسل کی بریفنگ کے دوران مشرق وسطیٰ میں 7 اکتوبر کے حملے کے بعد کی صورتحال بارے تفصیلات بتائیں ۔15 رکنی تنظیم نے اسرائیل کے 17 اکتوبر کو غزہ میں العہلی عرب ہسپتال پر وحشیانہ حملہ کے علاوہ حماس کی طرف سے مزاحمت کو روکنے اور خطے میں بڑھتے ہوئے تنازعے کے انتباہ کے ساتھ 16 اکتوبر سے پہلے انسانی بنیادوں پر جنگ بندی شرائط پر اتفاق کے لیے اجلاس منعقد کیا لیکن دونوں مواقع پر پندرہ رکنی تنظیم اس پر کوئی قرارداد منظور کرنے میں ناکام رہی۔۔ مشرق وسطیٰ کے امن عمل کے خصوصی کوآرڈینیٹر ٹور وینز لینڈ نے دوحہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ دنیا گہری اور خطرناک کھائی کے دہانے پر ہے،حالات کی کوئی ایک جنبش اسرائیل فلسطین تنازعہ کی رفتار بدل سکتی ہے، تنازعات کے حل کے لئے اگر بروقت سنجیدہ قدم نہ اٹھایا گیا تو پوری دنیا جنگ کی لپیٹ میں آنے والی ہے۔

اسلم اعوان
اسلم اعوانhttps://urdu.defencetalks.com/author/aslam-awan/
اسلم اعوان نے صحافت کے متحرک اور ابھرتے ہوئے میدان کے لیے متاثر کن تیس سال وقف کیے ہیں، جس کے دوران انھوں نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا آؤٹ لیٹس کی متنوع صفوں میں رپورٹنگ اور کالم نگاری دونوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ اپنے وسیع کیریئر کے دوران انہوں نے بہت سے موضوعات کا احاطہ کیا ہے، لیکن انہوں نے افغانستان پر خاص توجہ مرکوز کی ہے، ایک ایسا خطہ جو دہائیوں سے بین الاقوامی توجہ کا مرکز ہے۔ افغانستان کے سیاسی منظر نامے، سماجی مسائل اور ثقافتی باریکیوں کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے لیے اعوان کے عزم نے انہیں فیلڈ میں ایک قابل احترام آواز بنا دیا ہے۔ وہ نہ صرف موجودہ واقعات پر رپورٹ کرتے ہیں بلکہ بصیرت انگیز تجزیہ بھی فراہم کرتے ہیں جس سے قارئین کو خطے میں ہونے والی پیش رفت کے وسیع مضمرات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ افغانستان پر اپنے کام کے علاوہ، اعوان وسطی ایشیا اور روس کی جغرافیائی سیاسی حرکیات میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ بین الاقوامی امور میں ان کی مہارت انہیں مختلف عالمی واقعات کے درمیان کڑیوں کو جوڑنے کے قابل بناتی ہے، جس سے ایک جامع نقطہ نظر پیش کیا جاتا ہے کہ یہ خطے ایک دوسرے اور باقی دنیا کے ساتھ کس طرح جڑے ہوئے ہیں۔ اپنی تحریر کے ذریعے، اسلم اعوان قوموں کے درمیان پیچیدہ تعلقات، عصری مسائل پر تاریخی واقعات کے اثرات اور بین الاقوامی سفارت کاری کی اہمیت کو روشن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صحافت کے تئیں ان کی لگن ان کی مکمل تحقیق، درستگی سے وابستگی اور کہانی سنانے کے جذبے سے عیاں ہے، یہ سب کچھ اس پیچیدہ دنیا کی گہری تفہیم میں معاون ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔

جواب دیں

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا

مقبول ترین