پاکستان کے خلاف ناکام جارحیت کے بعد بھارتی مسلح افواج کے اندر اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ پہلے بھارتی بحریہ کے سابق وائس ایڈمرل ہرمندر سنگھ نے فضائیہ کی حکمتِ عملی پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے "ناکامیوں کا تسلسل” قرار دیا، اور اب بھارتی فضائیہ کے ریٹائرڈ ایئرمارشل رگھوناتھ نمبیار نے جوابی وار کرتے ہوئے بحریہ کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔
ایئرمارشل نمبیار نے اپنے کالم میں لکھا کہ "ہرمندر سنگھ نے ایئر پاور کے استعمال پر غیر فنی اور تعصب زدہ تبصرہ کیا، جس سے نہ صرف حقائق مسخ ہوئے بلکہ تینوں فورسز کے درمیان دوستی اور اعتماد کے رشتے کو نقصان پہنچا۔”

ان کے مطابق ہرمندر سنگھ کا یہ کہنا کہ رافیل جیسے جدید طیارے محض نمائشی صلاحیت رکھتے ہیں، غیر حقیقی اور سطحی مؤقف ہے۔ نمبیار نے طنزاً لکھا کہ "اگر رافیل فضول سرمایہ کاری ہے تو پھر بحریہ کو نئے جہازوں اور فوج کو جدید رائفلوں کی بھی ضرورت نہیں۔”
انہوں نے تسلیم کیا کہ تمام رافیل طیارے مشن کے بعد واپس آئے، تاہم ساتھ ہی وضاحت دی کہ "اگر کوئی ایک آدھ گر بھی گیا ہو تو یہ جنگ کا حصہ ہے، کیونکہ ایئرمشن پارک میں چہل قدمی نہیں ہوتا۔”
نمبیار نے مزید کہا کہ بحریہ کی یہ سوچ غلط ہے کہ براہموس میزائل کے استعمال سے فضائی کارروائی جیسا اثر حاصل ہوسکتا ہے۔ "طیارہ آٹھ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پوزیشن بدل سکتا ہے، پندرہ ناٹ کی رفتار سے رینگ نہیں سکتا۔”
ایئرمارشل نے اپنے مضمون میں تینوں فورسز کی یونیفائیڈ کمان کے حوالے سے فضائیہ کے مؤقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ "فضائیہ کے موقف کو اس طرح نشانہ بنانا قومی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہے۔”
انہوں نے ہرمندر سنگھ کے اس مطالبے کو بھی مسترد کیا کہ فضائیہ کو تمام حقائق عوام کے سامنے لانے چاہئیں، یہ کہہ کر کہ "آپریشن سندور میں جو کچھ کیا، اسے جاری رکھنے کی ضرورت ہے، وضاحتوں کی نہیں۔”
پس منظر: "آپریشن سندور” پر اختلافات کی جڑ
یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب سابق ڈپٹی چیف آف نیول اسٹاف وائس ایڈمرل ہرمندر سنگھ نے روزنامہ ٹریبیون انڈیا میں شائع اپنے کالم میں بھارتی فضائیہ کی کارکردگی کو ناکام قرار دیا۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان کے خلاف کارروائی کے دوران پاک فضائیہ پہلے سے تیار اور بہترین پوزیشن میں تھی۔ ان کے مطابق "اپنی فضائی حدود میں رہتے ہوئے پاک فضائیہ نے رافیل سمیت کئی بھارتی طیارے مار گرائے، لیکن وجوہات اب تک منظرِ عام پر نہیں آئیں۔ ممکنہ طور پر انٹیلی جنس کی ناکامی اور جدید فضائی رجحانات سے ناواقفیت اس کی وجہ رہی۔”
ہرمندر سنگھ نے بھارتی فضائیہ کی "فتح کے اعلانات” کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، یہ لکھتے ہوئے کہ "ہر مہم کے بعد کامیابی کے دعوے کیے جاتے ہیں، مگر تاریخ اور ریکارڈ کچھ اور بتاتے ہیں۔”
انہوں نے بالاکوٹ واقعے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ "ہائی تھریٹ انوائرنمنٹ میں پرانے مگ 21 کو استعمال کرنا آج تک سوالیہ نشان ہے۔” ان کے مطابق فرینڈلی فائر میں ہیلی کاپٹر گرنے کا واقعہ ناقص تربیت کا ثبوت تھا۔
ایڈمرل سنگھ نے مزید کہا کہ "بھارتی فضائیہ کے پاس جدید ترین طیارے ہونے کے باوجود وہ پاک فضائیہ کے ڈیفنس سسٹم کو توڑنے میں ناکام رہی، جبکہ ایس-400 جیسے سسٹمز کی کامیابی بھی فضائیہ کی نہیں بلکہ اتفاقی حالات کا نتیجہ تھی۔”
انہوں نے تینوں فورسز کے مابین انضمام (Integration) میں ایئرچیف کی رکاوٹ کو بھی نشانہ بنایا اور مزید طیارے خریدنے کی پالیسی پر سوال اٹھایا کہ "جب مستقبل کی جنگیں اسٹینڈ آف ویپنز سے لڑی جانی ہیں تو اربوں ڈالر کے طیاروں کی کیا ضرورت ہے؟”
تجزیہ:
بھارتی فوج کی اعلیٰ قیادت کے درمیان یہ قلمی جنگ اس بات کی علامت ہے کہ "آپریشن سندور” کے نتائج نہ صرف عسکری بلکہ سیاسی سطح پر بھی شدید دباؤ پیدا کر چکے ہیں۔
جہاں بھارتی حکومت نے اسے کامیابی کے طور پر پیش کیا، وہیں فوج کے اندر سے اٹھنے والی یہ تنقیدی آوازیں اس دعوے کی ساکھ کو کمزور کر رہی ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بھارتی فوج کی تینوں شاخوں کے درمیان یہ تقسیم نہ صرف پالیسی سازی میں تضاد کو ظاہر کرتی ہے بلکہ مستقبل میں بھارت کی عسکری حکمتِ عملی کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتی ہے۔




