صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے صدر شی کے ساتھ ملاقات سے پہلے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی اور تمام کیپیٹل حروف میں لکھا کہ ” جی ٹو جلد ہی شروع ہوگی”۔
اس پیغام کو سب نے اپنی اپنی مرضی کے مطابق ڈی کوڈ کیا، امریکی میڈیا نے اسے جی سیون کی طرز پر جی ٹو قرار دیا اور کہا کہ دنیا کی سات بڑی عالمی معیشتوں کے گروپ کو جی سیون کہا جاتا ہے اور دو سب سے بڑی معیشیں جی ٹو کہی جا رہی ہیں۔
لیکن یہ پیغام صرف یہاں تک محدود نہیں تھا، یہ پیغام گریٹ پاورز کے حوالے سے بھی تھا، ٹرمپ نے دنیا کو دو قطبی قرار دے کر کسی تیسری کے امکان کو مسترد کرنے کی کوشش کی اور ساتھ ہی چین کی متصورہ برتری کو برابری کی سطح پر لانے کی کوشش بھی کی۔
یہ پیغام کئی سامعین کے لیے تھا اور ہمارے خطے میں یہ پیغام بھارت میں بہت غور سے دیکھا، سنا اور پڑھا گیا۔
بھارت جو اپنے وزن سے بھی زیادہ بڑے دعوے کرتا ہے، یہ پیغام سمجھ گیا ہوگا۔ چین نے خاموشی سے معیشت اور طاقت پر کام کیا، اب وہ امریکا کے مقابل ہے اور بعض حوالوں سے امریکا سے آگے بھی نکل چکا ہے لیکن اب بھی چین کود کو ترقی پذیر ملک کہتا ہے۔
بھارت جو کسی بھی طرح ان دونوں کے مقابلے میں نہیں ہے لیکن بلاوجہ سپرپاور ہونے کا زعم رکھتا ہے۔
وہ ملک جو جنگی طیاروں کے لیے یورپ اور روس کی طرف دیکھتا ہے، جس کی معیشت امریکی ٹیرف کا بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتی، جس کے شہریوں کو امریکا کے ایچ ون بی ویزوں کی تلاش ہے اور بھارتی حکومت ان ویزوں کے لیے اعلیٰ سفارتی کوششوں میں مصروف رہتی ہے اور ٹرمپ کے حالیہ قدامات کو دشمنی سمجھتی ہے، ان حالت میں سپرپاور کا زعم زیب نہیں دیتا۔
چند بھارتی مبصرین جو ابھی تک سپر پاور ہونے کے زعم میں مبتلا ہیں، انہیں ” جی ٹو” کی اصطلاح بہت دکھ دے گئی، ان مبصرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ بنا سوچے سمجھے کچھ بھی کہہ دیتے ہیں اور عالمی سیاست کو گدلا کرتے ہیں، اس کے علاوہ ان مبصرین کے نزدیک ٹرمپ غیرملکی رہنماؤں کی چاپلوسی کرتے ہیں اور جی ٹو بھی اسی کا نتیجہ ہے۔ اگر چاپلوسی ہی مقصود تھی تو ٹرمپ نے کل بھی نریندر مودی کو دوست اور بہترین شخص کہا لیکن معاملات طے ہونے میں نہیں آ رہے اور اس کے لیے بے چینی نئی دہلی میں ہے، واشنگٹن میں نہیں۔
ٹرمپ کا جنوبی کوریا میں موجودگی کے دوران جی ٹو کی بات کرنا کچھ لوگوں کو عجیب لگا کیونکہ امریکی فوجی اڈے ابھی تک وہاں موجود ہیں اور ٹرمپ نے جنوبی کوریا کو جوہری طاقت سے چلنے والی آبدوز بنانے میں مدد کا منصوبہ بھی اسی دورے کے دوران منظور کیا۔جاپان میں امریکی فوج اور اڈے موجود ہیں اور ٹرمپ نے نئے جاپانی وزیر اعظم کے ساتھ وہاں امریکی افواج سے خطاب کیا۔
میرے خیال میں اس میں کچھ بھی عجیب نہیں، امریکا اور چین اب بھی حریف ہیں اور اپنے مفادات کے تحفظ کی پالیسیوں کو برقرر رکھیں گے، جیوپولیٹکس میں حریف ہونے کے باوجود دونوں ملکوں کی معیشت ایک دوسرے پر منحصر ہے، اس لیے ابھی تک کچھ عجیب نہیں ہوا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ نے علاقے میں چین کے تسلط کو قبول کر کے اتحادیوں کو پریشان کیا ہے، لیکن ابھی تک کسی نے بھی پریشانی یا بے چینی نہیں دکھائی سوائے بھارتی میڈیا کے، تائیوان جو اس کھیل میں سب سے بڑا متاثرہ فریق ہو سکتا ہے، تائیوان کے وزیر خارجہ نے اس ملاقات سے پہلے کہا کہ ہمیں امریکا۔تائیوان تعلقات میں اعتماد ہے اور ہمارے درمیان قریبی رابطے ہیں۔
جن کا خیال ہے کہ ٹرمپ نے علاقے میں چین کی بالادستی مان لی، وہ شاید اس بات کو نظرانداز کر رہے ہیں کہ ٹرمپ نے اس ملاقات سے پہلے دو بڑے فوجی اقدامات کیے، ایک تو انہوں نے انیس سو بانوے کے بعد پہلی بار امریکا کی جوہری مشقوں کا حکم دیا اور اس ملاقات کے وقت کے متوازی یہ مشقیں ہو رہی تھیں، اس کے امریکا کی سنٹرل کمان نے اس ملاقات سے پہلے خطے میں تعینات فورسز کو بحیرہ جنوبی چین میں درستگی کے ساتھ ہدف کو نشانہ بنانے والے ہتھیاروں کی مشق کا حکم دیا، ضروری نہیں کہ یہ مشق ہو کیونکہ ایسی مشقوں کا اعلان نہیں ہوتا اور انہیں آخری لمحوں میں بھی منسوخ یا ملتوی کیا جا سکتا ہے لیکن سی این بی سی نے اسے رپورٹ کردیا۔
سی این بی سی کی رپورٹ کے مطابق یہ واضح نہیں ہے کہ HIMARS کس کو نشانہ بنائے گا لیکن اس آپریشن کا مقصد واشنگٹن کے خطے میں بیجنگ کی بڑھتی ہوئی موجودگی سے پیچھے نہ ہٹنے کے ارادے کا اظہار کرنا ہے۔
ہائی موبلٹی آرٹلری راکٹ سسٹم، یا HIMARS، مقررہ اہداف کو درستگی کے ساتھ نشانہ بنا سکتے ہیں، جیسے گولہ بارود کے ڈپو یا فوجی پوزیشنز۔ لاک ہیڈ مارٹن کا بنایا گیا، یہ نظام 9/11 کے بعد کی عراق اور افغانستان کی جنگوں میں وسیع پیمانے پر استعمال ہوا ۔
چند تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ٹرمپ نے صدر شی کے ساتھ ملاقات میں تجارتی جنگ بندی کی کوشش کی اور بھارت کے ساتھ رویہ بدستور سخت ہے، وہ اسے ٹرمپ کے ناقابل پیشگوئی مزاج اور ذاتی مراسم سے جوڑتے ہیں لیکن جمہوری ملکوں کی پالیسیاں شخصیت پر منحصر نہیں ہوتیں ، بالخصوص خارجہ پالیسی کی نگرانی امریکی کانگریس کرتی ہے اور مداخلت بھی کر سکتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ایئرفورس ون میں صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کو بہترین قرار دیا اور کہا کہ اگر اس ملاقات کو صفر سے دس کے سکیل پر جانچا جائے تو دس بہترین ہے لیکن میں کہوں گا کہ اس کا سکیل بارہ تھا۔
امریکا اور چین کے درمیان تناؤ کی سب سے بڑی وجہ نادر معدنیات کی ایکسپورٹ پر چین کا کنٹرول اور برآمدی پابندی تھی۔ صدر ٹرمپ نےکہا کہ نادر معدنیات سے متعلق مسئلہ حل ہو گیا ہے، توقع ہے کہ بیجنگ کچھ برآمدی پابندیاں ہٹا لے گا۔امریکہ نایاب معدنیات کی خریداری اور پیداوار کو جاری رکھنے کے قابل ہو گا۔
چین کی وزارت خارجہ بھی تصدیق کی کہ شی جن پنگ اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ملاقات کے بعد "اہم اقتصادی اور تجارتی مسائل” پر "اتفاق رائے پر پہنچ گئے” ہیں۔
چینی وزارت خارجہ نے ٹرمپ کے اس بیان کی بھی تصدیق کی کہ ٹرمپ اگلے سال اپریل میں چین کا دورہ کر یں گے اور انہوں نے شی کو امریکہ کے دورے کی دعوت دی ہے۔
چین کی وزارت تجارت نے بھی تصدیق کی کہ چین نایاب معدنیات کے برآمدی کنٹرول کے ساتھ ساتھ امریکی بحری جہازوں کو نشانہ بنانے والی خصوصی پورٹ فیس کے نفاذ کو معطل کر دے گا۔
اس ملاقات کا حاصل یہ ہے کہ امریکا نے نہ صرف چین کو سپر پاور مان لیا بلکہ یہ بھی ثابت ہوا کہ چین کو غنڈہ گردی کے ساتھ ڈیل نہیں کیا جا سکتا۔ امریکا بھارت، کینیڈا سمیت دنیا کے ہر ملک کو دھمکا کر ڈیل کر سکتا ہے لیکن چین کے ساتھ ایسا نہیں کرسکتا کیونکہ دونوں فریق ہونے کے ساتھ ایک دوسرے پر منحصر بھی ہیں۔




