کابل — افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کی سربراہی میں منعقد ہونے والے ملک گیر علما اجلاس نے ایک اہم قرارداد منظور کی ہے جس کے تحت کسی افغان شہری کو بیرونِ ملک عسکری کارروائی میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوگی۔ یہ اجلاس بدھ کے روز کابل میں ہوا جس میں تمام صوبوں کی علما کونسلوں کے درجنوں نمائندوں نے شرکت کی۔
دو صفحات اور پانچ نکات پر مشتمل یہ قرارداد طالبان سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کی جانب سے جاری ہدایات کے تناظر میں مرتب کی گئی ہے۔ بی بی سی کو حاصل مسودے کے مطابق سپریم لیڈر نے واضح کیا ہے کہ افغان شہریوں کا کسی دوسرے ملک میں جا کر لڑنا ’’جائز نہیں‘‘ اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس عمل کو روکے۔
خطے میں تناؤ کے دوران اہم اشارہ
یہ قرارداد ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب پاکستان اور افغانستان کے تعلقات دہشت گردی کے واقعات اور سرحدی جھڑپوں کے باعث شدید کشیدگی کا شکار ہیں۔ پاکستان مسلسل افغان طالبان سے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی اور ایک واضح فتویٰ جاری کرنے کا مطالبہ کرتا رہا ہے، تاہم کابل اسے پاکستان کا ’’اندرونی معاملہ‘‘ قرار دیتا ہے۔
دوحہ، استنبول اور ریاض میں ہونے والے مذاکرات کے کئی ادوار بھی ٹی ٹی پی پر اتفاق نہ ہونے کے باعث بے نتیجہ رہے، جبکہ گزشتہ دو ماہ سے سرحدی گزرگاہیں بھی بند پڑی ہیں۔
قرارداد کے نکات: بیرونی جارحیت کی صورت میں ’مقدس جہاد‘، مگر باہر جا کر لڑنے پر پابندی
قرارداد کا دوسرا اہم نکتہ افغانستان پر بیرونی حملے کی صورت میں مزاحمت کو ’’لازمی فریضہ‘‘ قرار دیتا ہے۔ متن کے مطابق:
’’اگر کوئی باہر سے افغانستان پر حملہ کرتا ہے یا مسلمانوں کے تقدس کو پامال کرتا ہے تو تمام افغانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے نظام، سرزمین اور اقدار کا دفاع کریں۔‘‘
تاہم بیرونِ ملک جا کر لڑائی میں شرکت کی ممانعت کو خصوصی طور پر دہرایا گیا ہے، جسے مبصرین پاکستان کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔
علما اجلاس کی نوعیت اور شرکا
اجلاس میں طالبان حکومت کے اعلیٰ عہدیدار—بشمول سپریم کورٹ کے سربراہ مولوی عبدالحکیم حقانی، اخلاقی پولیس کے وزیر خالد حنفی اور وزیرِ اعلیٰ تعلیم ندا محمد ندیم—موجود تھے۔ ذرائع کے مطابق وزارتِ امر بالمعروف، وزارتِ حج و اوقاف اور سپریم کورٹ سے وابستہ مذہبی شخصیات بھی شریک تھیں۔
علما کونسل کے اراکین کا انتخاب براہِ راست طالبان امیر ہیبت اللہ اخوندزادہ کرتے ہیں، لہٰذا اس اجلاس کو حکومتی پالیسی کے اشارے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
قرارداد کا ممکنہ اثر: پاکستان کے لیے فائدہ؟ یا ابھی کہنا قبل از وقت؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قرارداد میں ٹی ٹی پی کا نام تو نہیں لیا گیا، مگر بیرون ملک لڑائی سے روکنے کی شق پاکستان کے ایک دیرینہ مطالبے سے کسی حد تک ہم آہنگ ہے۔
طاہر خان کا تجزیہ
افغان اُمور کے ماہر طاہر خان کے مطابق:
- پاکستان کے فتوے سے متعلق مطالبے کے تناظر میں یہ قرارداد کسی حد تک اُس سمت اشارہ کرتی ہے۔
- البتہ ’کیا اس سے پاکستان میں شدت پسندی کم ہوگی، ابھی کہنا قبل از وقت ہے‘۔
- 2023 میں بھی طالبان قیادت کی توثیق کے ساتھ جاری ہونے والے ایک فتویٰ کے بعد دہشت گرد حملوں میں کمی دیکھی گئی تھی۔
طاہر خان کے مطابق افغان طالبان کے لیے بھی یہ صورتحال تشویش ناک ہے، کیونکہ حالیہ حملوں میں افغان شہریوں کی مبینہ شمولیت اُن کے لیے سفارتی اور داخلی سطح پر مسائل کھڑے کر رہی ہے۔
افتخار فردوس کا نقطۂ نظر
خراسان ڈائری کے مدیر افتخار فردوس نے کہا:
- قرارداد میں کوئی بھی ایسا نکتہ نیا نہیں جسے طالبان پہلے بیان نہ کر چکے ہوں۔
- کسی گروہ کا نام نہ لینے کے باعث یہ کہنا مشکل ہے کہ پاکستان کو عملی فائدہ ہوگا۔
- تاہم امکان ہے کہ مستقبل میں ٹی ٹی پی یا دیگر گروہوں سے متعلق مزید ہدایات سامنے آئیں۔
ان کے مطابق یہ قرارداد حالیہ مہینوں میں پاکستان کی جانب سے افغانستان کے اندر کیے گئے حملوں کے تناظر میں بھی دیکھی جا رہی ہے، اور ’’بیرونی جارحیت‘‘ سے متعلق شق پاکستان کی جانب اشارہ سمجھا جا سکتا ہے۔
فتویٰ کا مسئلہ: طالبان کا مؤقف اور پاکستان کی توقعات
مذاکرات کے دوران افغان نائب وزیرِ داخلہ رحمت اللہ نجیب یہ واضح کر چکے ہیں کہ:
- فتویٰ دارالافتا جاری کرتا ہے، حکومت نہیں۔
- پاکستان اپنی مرضی کے مطابق فتویٰ آنے کی توقع نہ رکھے۔
پاکستانی حکام کا خیال ہے کہ چونکہ ٹی ٹی پی کے جنگجو ہیبت اللہ اخوندزادہ کی بیعت کرتے ہیں، لہٰذا ایک مذہبی حکم اُن کی کارروائیوں کا نظریاتی جواز کمزور کر سکتا ہے۔
پاکستان چاہتا ہے کہ فتویٰ ٹی ٹی پی کی کارروائی کو مذہبی بنیاد پر رد کرے اور اسے ’’جرائم‘‘ کے دائرے میں لے آئے۔
آگے کا منظرنامہ
تجزیہ کاروں کے مطابق:
- یہ قرارداد طالبان حکومت کے لیے سفارتی دباؤ کم کرنے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔
- ٹی ٹی پی کے لیے بھی یہ ایک غیر براہِ راست پیغام ہے کہ افغان سرزمین کو بیرونی کارروائیوں کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔
- پاکستان اور افغانستان کے تعلقات تاریخ کی بدترین کشیدگی سے گزر رہے ہیں اور دونوں طرف اعتماد کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔
اگر آنے والے دنوں میں اس قرارداد پر عملی پیش رفت نظر آتی ہے تو یہ خطے کی سیکیورٹی صورتِ حال پر اہم اثر ڈال سکتی ہے—لیکن فی الحال اس کا عملی نتائج دینا یقینی نہیں کہا جا سکتا۔




