اس خبر نے بھارتی میڈیا میں بھونچال بپا کر رکھا ہے کہ بنگلہ دیش نے پاکستانی فوج کی ایک ٹیم کو اپنے فوجیوں کو تربیت فراہم کرنے کے لیے مدعو کیا ہے۔
بنگلہ دیش میں عوامی غیظ و غضب کے نتیجے میں شیخ حسینہ واجد حکومت کی رخصتی نے پہلے بھی بھارت کے مفادات کو بنگلہ دیش اور خطے میں زک پہنچائی، اب پاکستان اور بنگلہ دیش کی بتدریج قربت نئی دہلی کے لیے پریشانی کا باعث بن رہی ہے۔
فوجی تربیت کی خبر کو بھارتی میڈیا نے ان الفاظ کے ساتھ پیش کیا کہ 1971 کی پاک بھارت جنگ کے 53 سال بعد پاکستانی فوج ایک بار پھر بنگلہ دیش میں داخل ہو گی۔ پاک فوج کا میجر جنرل رینک کا ایک افسر بنگلہ دیش کی فوج کے فوجیوں کی تربیت کی نگرانی کرے گا۔
اطلاعات کے مطابق تربیت کا آغاز فروری 2025 میں ہوگا۔ تربیت کا پہلا مرحلہ آرمی ٹریننگ اور ڈاکٹرائن کمانڈ ہیڈ کوارٹرز میں مومن شاہی چھاؤنی میں ہوگا۔ تربیت کا پہلا مرحلہ ایک سال میں مکمل کیا جائے گا۔ بعد ازاں پاک فوج بنگلہ دیشی فوج کی تمام 10 کمانڈز کو تربیت بھی فراہم کرے گی۔
پاک فوج کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل ساحر شمشاد مرزا نے نومبر میں بنگلہ دیش کو تربیت کی پیش کش کی تھی۔ اس تجویز کو بنگلہ دیش کے آرمی چیف وقار الزمان نے قبول کیا جس کے بعد پاکستانی فوج کو اپنے فوجیوں کی تربیت کے لیے باضابطہ دعوت دی گئی۔
فوجی تربیت کے علاوہ بنگلہ دیش پاکستان سے اسلحہ بارود بھی خرید رہا ہے، بھارتی میڈیا نے اطلاع دی کہ ستمبر سے دسمبر کے درمیان بنگلہ دیش نے 40,000 گولہ بارود کا آرڈر دیا تھا۔ یہ پچھلے سال کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش نے گزشتہ سال 12000 گولہ بارود کا آرڈر دیا تھا۔ اس کے علاوہ ٹینک گولہ بارود کے 2000 راؤنڈ اور 40 ٹن آر ڈی ایکس کا بھی آرڈر دیا۔
بنگلہ دیش اور پاکستان کے روابط صرف فوجی سطح تک محدود نہیں بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی، سفارتی اور کاروباری سطح پر رابطے بڑھے ہیں۔
انیس دسمبر کو، پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس کے درمیان ڈی ایٹ سربراہ اجلاس کے موقع پر قاہرہ میں مذاکرات ہوئے، ستمبر میں نیویارک میں یو این جی اے کے موقع پر ہونے والی ملاقات کے بعد دونوں کے درمیان یہ دوسری ملاقات تھی۔ قاہرہ میں ہونے والی ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں نے تجارت میں اضافے اور ثقافتی وفود اور کھیلوں کے تبادلے کے ذریعے دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے پر اتفاق کیا۔ انہوں نے شوگر انڈسٹری اور ڈینگی بخار کے انتظام کے شعبوں میں تعاون میں بھی اپنی دلچسپی کا اظہار کیا جس کی وجہ سے 2023 میں بنگلہ دیش میں تقریباً ایک ہزار اموات ہوئیں۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تاریخی، مذہبی اور ثقافتی روابط کو اجاگر کرتے ہوئے، شریف نے اظہار کیا، "پاکستان دوطرفہ تعاون کو بڑھانے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے، خاص طور پر تجارت، عوام سے عوام کے رابطوں اور ثقافتی تبادلوں کے شعبوں میں”۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اقتصادی تعاون کے لیے نئے شعبوں کی تلاش کے لیے مشترکہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے اور سیمنٹ کلینکرز، چمڑے کے سامان، جراحی کے سامان، کیمیکلز اور آئی ٹی سمیت مختلف شعبوں میں تجارت کو بڑھانے کی بھرپور صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔
دو طرفہ تعلقات کے علاوہ، رہنماؤں نے جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم (سارک) کی بحالی پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کا چارج سنبھالنے کے بعد سے، سارک کی بحالی خارجہ پالیسی کا ایک اہم مقصد رہا ہے۔ شہباز شریف سے ملاقات کے دوران، یونس نے کہا کہ سارک کو بحال کرنا ان کی "اولین ترجیح” ہے اور "میں سارک کے خیال کا بہت بڑا حامی ہوں۔ میں اس معاملے پر آواز اٹھاتا رہتا ہوں۔ میں سارک رہنماؤں کا سربراہی اجلاس چاہتا ہوں چاہے وہ صرف فوٹو سیشن کے لیے ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اس سے ایک مضبوط پیغام ملے گا۔ اس تناظر میں، شہباز شریف نے کہا کہ وہ اس اقدام کی حمایت کریں گے اور تجویز پیش کی کہ علاقائی پلیٹ فارم کو بحال کرنے کے لیے دونوں ممالک کو قدم بہ قدم آگے بڑھنا چاہیے۔
2014 سے اب تک سارک کا دو سالہ سربراہی اجلاس منعقد نہیں ہوسکا۔ آخری سربراہی کانفرنس اسی سال نیپال میں ہوئی تھی۔ اگلی سربراہی کانفرنس، جو 2016 میں پاکستان میں طے کی گئی تھی، بھارت، بنگلہ دیش، بھوٹان اور افغانستان کے شرکت نہ کرنے کے فیصلے کے بعد کبھی منعقد نہیں ہوئی۔ اگر یونس سارک کو بحال کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ نہ صرف پاکستان اور بنگلہ دیش بلکہ علاقائی تنظیم کے دیگر رکن ممالک کے لیے بھی فائدہ مند ہو گا۔
دوطرفہ اور کثیرالجہتی تعلقات کو مضبوط بنانے سے متعلق بات چیت کے علاوہ، ڈاکٹر یونس نے شہباز شریف پر زور دیا کہ 1971 کے مسئلے کو حل کیا جائے تاکہ بنگلہ دیش کو پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو آگے بڑھانے میں مدد ملے۔ انہوں نے کہا، ’’مسائل بار بار آتے رہے ہیں۔ آئیے آگے بڑھنے کے لیے ان مسائل کو حل کریں۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ اچھا ہو گا کہ اس مسئلے کو "ایک بار اور ہمیشہ کے لیے آنے والی نسلوں کے لیے” حل کر لیا جائے۔
اس حوالے سے بنگلہ دیش میں پاکستان کے سابق سفیر افراسیاب مہدی نے وائس آف امریکا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 1971 میں ہونے والی زیادتیوں کا معاملہ تو اس وقت ختم ہو گیا تھا جب پاکستان بنگلہ دیش اور بھارت نے 1974 میں ایک معاہدے کے ذریعے تعلقات استوار کیے۔
افراسیاب مہدی نے کہا کہ اس معاہدے میں پاکستان نے 1971 کے واقعات پر افسوس کا اظہار کیا اور شیخ مجیب نے کہا تھا کہ بنگالی معاف کرنا اور آگے بڑھنا جانتے ہیں۔
افراسیاب مہدی کے مطابق اس کے بعد شیخ مجیب نے پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا۔ اس لیے ماضی میں حل ہو چکے معاملے کو اب دوبارہ نہیں چھیڑنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جنرل یحیٰی اور جنرل نیازی کو پاکستان میں کوئی اپنا ہیرو نہیں مانتا اور سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے بھی اپنے دورۂ ڈھاکہ میں یادگار شہدا پر جاکر ان واقعات پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔
شیخ حسینہ کے پندرہ سالہ دورِ حکومت کے دوران پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں سرد مہری کا عنصر نمایاں تھا۔ بعض ماہرین کے نزدیک اس کی وجہ شیخ حسینہ کا بھارت کی طرف جھکاؤ تھا۔
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اس وقت نئی نچلی سطح کو چھو گئے جب حسینہ واجد کی حکومت نے جماعت اسلامی پارٹی کے کئی رہنماؤں کو 1971 کے واقعات کے دوران کیے گئے مبینہ جنگی جرائم کے الزام میں سزائے موت دینے کا فیصلہ کیا۔ جنگ کے دوران پاکستان کے حامی موقف اختیار کرنے والوں کو سزائیں دی گئیں۔ 2016 میں دونوں ممالک نے سفارت کاروں کو ملک بدر کر دیا۔ حسینہ کی 15 سالہ حکمرانی کے دوران، پاکستان کے بنگلہ دیش کے ساتھ کبھی بھی گرمجوش تعلقات نہیں رہے، کیوں کہ ان کے خاندان کی پاکستان کے حکمران طبقے کے خلاف رنجش تھی۔ بہر حال، یہ بھارت کے ساتھ ان کی قربت تھی جس نے بنگلہ دیش کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو سب سے زیادہ خراب کیا۔
حسینہ کی برطرفی اور یونس کی پاکستان کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی کوششیں بھارت میں گہری تشویش کا باعث بن سکتی ہیں۔ 1971 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش کے سابق قیام کے بعد سے ہی بھارت کے ساتھ گرمجوشی کے تعلقات تھے۔ 2009 میں حسینہ واجد کے اقتدار میں آنے کے بعد ڈھاکہ اور نئی دہلی کے درمیان گہری اقتصادی اور سیکیورٹی شراکت داری قائم کرنے کے بعد سے یہ تعلقات غیر معمولی سطح پر پہنچ گئے تھے۔
شیخ حسینہ کی بے دخلی کے ساتھ، بنگلہ دیش میں "انڈیا آؤٹ” مہم کے ساتھ، نئی دہلی کے لیے جغرافیائی سیاسی مضمرات ہیں۔ اس تناظر میں، ولسن سینٹر کے ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے کہا، ’’بھارت کو بنگلہ دیش میں ایک بڑا جیو پولیٹیکل دھچکا لگا ہے۔ یہ صورتحال بھارت کے لیے ایک ڈراؤنے خواب کے منظر نامے کے قریب ہے۔
پاکستان کے سابق سینیٹر مشاہد حسین سید نے وائس آف امریکا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈھاکہ میں آنے والی تبدیلی کے نتیجے میں بنگلہ دیش کا بھارت اور پاکستان سے متعلق نظریہ بھی تبدیل ہوا ہے۔ دونوں ملکوں کی علاقائی اور خارجہ پالیسی میں خاصی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اب وقت ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے دو طرفہ تعلقات کو ہر سطح پر مضبوط بنایا جائے۔
مشاہد حسین سید انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کے عوام بھی چاہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے دوستانہ اور اسٹرٹیجک تعلقات مزید گہرے ہونے چاہئیں۔
مشترکہ سرحد، آبی وسائل کے تعاون، اور بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان مضبوط تجارتی تعلقات کے پیش نظر، نئی دہلی ڈھاکہ کے لیے اسٹریٹجک طور پراب بھی اہم ہے۔ اس کے ساتھ ڈھاکہ اور اسلام آباد کے درمیان حسینہ کے بعد کے تعلقات تال میل کی راہ پر گامزن دکھائی دیتے ہیں جو ممکنہ طور پر دونوں کے درمیان بہتر سیاسی اور تجارتی تعلقات کی راہ ہموار کریں گے۔
Discover more from Defence Talks Urdu | Defense News Military Pictures
Subscribe to get the latest posts sent to your email.