پیر, 14 جولائی, 2025

تازہ ترین

متعلقہ تحریریں

جنوبی کوریا کے صدر نے اپوزیشن کے دباؤ پر مارشل لا کا اعلان واپس لے لیا، مواخذے کا سامنا

جنوبی کوریا کے قانون سازوں نے بدھ کے روز صدر یون سک یول کے مارشل لا کے اعلان، جسے انہوں نے چند گھنٹوں بعد ہی واپس لے لیا،  کے بعد ان کے مواخذے کا مطالبہ شروع کیا،، جس سے ایشیا کی چوتھی بڑی معیشت میں ایک اہم سیاسی بحران پیدا ہو گیا۔

منگل کو دیر گئے اس غیر متوقع اعلان نے پارلیمنٹ کے ساتھ تصادم کو جنم دیا، جس نے سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگانے اور میڈیا پر سنسر شپ لگانے کی ان کی کوششوں کی مخالفت کی۔ اس ہنگامہ آرائی کے دوران مسلح دستے سیول میں قومی اسمبلی میں زبردستی داخل ہوئے۔

حزب اختلاف کے قانون سازوں کے اتحاد نے بدھ کے روز مواخذے کا بل پیش کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا، جس کا مقصد 72 گھنٹوں کے اندر ووٹ دینا ہے۔ اتحاد کے ایک رکن ہوانگ ان ہا نے پریس کو بتایا، "پارلیمنٹ کو صدر کے فرائض کی فوری معطلی کو ترجیح دینی چاہیے تاکہ مواخذے کے عمل کو تیز کیا جا سکے۔”

یون کی حکمران پیپلز پاور پارٹی کے رہنما نے وزیر دفاع کم یونگ ہیون کی برطرفی اور پوری کابینہ کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔

منگل کو دیر گئے ایک ٹیلی ویژن خطاب میں، یون نے مارشل لاء کا جواز پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ جنوبی کوریا کو شمالی کوریا اور ریاست مخالف عناصر کی طرف سے لاحق جوہری خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے، حالانکہ انہوں نے فوری طور پر کسی خطرات کی وضاحت نہیں کی۔ صورتحال اس وقت کشیدہ ہو گئی گئی جب ہیلمٹ پہنے فوجی ٹوٹی کھڑکیوں سے پارلیمنٹ میں داخل ہوئے، جبکہ فوجی ہیلی کاپٹر اوپر چکر لگا رہے تھے۔ پارلیمانی معاونین نے فوجیوں کو پیچھے ہٹانے کے لیے آگ بجھانے والے آلات کا استعمال کیا اور باہر مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں۔

فوج نے پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں پر پابندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا اور پبلشرز مارشل لاء کمانڈ کے دائرہ اختیار میں آئیں گے۔ تاہم، اس اعلان کے چند گھنٹے بعد، جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ نے اپنے 300 میں سے 190 اراکین کے ساتھ اجلاس بلایا اور متفقہ طور پر ایک تحریک منظور کی جس میں صدر یون کی پارٹی کے تمام 18 اراکین سمیت مارشل لا کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس کے بعد صدر نے اعلامیہ منسوخ کر دیا۔

یہ بھی پڑھیں  تیسری عالمی جنگ کیسے اور کہاں سے شروع ہوگی؟

قومی اسمبلی کے باہر مظاہرین نے ’’ہم جیت گئے‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے جشن منایا۔ مزید مظاہروں کی توقع زیادہ ہے، کیونکہ کوریائی کنفیڈریشن آف ٹریڈ یونینز، جنوبی کوریا میں سب سے بڑا یونین اتحاد، سیول میں ایک ریلی نکالنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس نے صدر یون کے مستعفی ہونے تک ہڑتال کرنے کا عزم کیا ہے۔

امریکی سفارت خانے نے جنوبی کوریا میں امریکی شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ احتجاجی علاقوں سے دور رہیں، جب کہ Naver Corp اور LG Electronics جیسی بڑی کمپنیوں نے ملازمین کو گھر سے کام کرنے کی سفارش کی ہے۔

مالیاتی منڈیوں نے ہنگامہ خیزی کا سامنا کیا، جنوبی کوریا کے اسٹاک میں تقریباً 2 فیصد کی کمی ہوئی اور دو سال کی کم ترین سطح کو چھونے کے بعد مستحکم ہوئی۔ رپورٹس میں جنوبی کوریا کے حکام کی جانب سے کرنسی کی گراوٹ کو روکنے کے لیے ممکنہ مداخلت کا اشارہ دیا گیا ہے۔

وزیر خزانہ چوئی سانگ موک اور بینک آف کوریا کے گورنر ری چانگ یونگ نے راتوں رات ہنگامی اجلاس کئے، وزارت خزانہ نے ضرورت پڑنے پر مارکیٹوں کو سپورٹ کرنے کا وعدہ کیا۔ حکومت نے کہا، "ہم اسٹاک، بانڈز، قلیل مدتی کرنسی مارکیٹس، اور فاریکس مارکیٹ میں لامحدود لیکویڈیٹی داخل کریں گے جب تک کہ وہ مکمل طور پر معمول پر نہ آجائیں۔” بینک آف کوریا نے اعلان کیا کہ وہ بدھ سے خصوصی  آپریشنز شروع کرے گا تاکہ مقامی مالیاتی اداروں کی ہموار کارکردگی کو یقینی بنایا جا سکے۔

’یون استعفیٰ دیں یا نکال  دیا جائے‘

سیئول کے رہائشیوں نے ٹیلی ویژن اور اسمارٹ فونز کے ذریعے صورتحال کی غور سے نگرانی کی، آن لائن بات چیت میں مشغول رہے، پھر بھی بدھ کے روز زندگی بڑی حد تک معمول کے مطابق جاری رہی۔

یہ بھی پڑھیں  مغربی افریقا دہشتگردی کا ہاٹ سپاٹ کیوں بنتا جارہا ہے؟

39 سالہ رہائشی کم بائیونگ اِن نے رائٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ’’مجھے یہ صورت حال انتہائی پریشان کن معلوم ہوتی ہے، اور مجھے ملک کے مستقبل کے بارے میں خاصی تشویش ہے۔ مرکزی حزب اختلاف کی ڈیموکریٹک پارٹی نے صدر یون پر زور دیا ہے، جو 2022 سے عہدے پر ہیں، یا تو استعفیٰ دیں یا مارشل لاء کے اعلان کے بعد مواخذے کا سامنا کریں، جو 1980 کے بعد جنوبی کوریا میں پہلا  مارشل لاہے۔

ڈیموکریٹک پارٹی کے سینئر رکن پارک چن ڈے نے ایک بیان میں کہا اگر مارشل لاء بھی ختم ہو جائے تو وہ غداری کے الزامات سے بچ نہیں سکتے۔ یہ بات پوری قوم پر عیاں ہو چکی ہے کہ صدر یون مؤثر طریقے سے حکومت کرنے سے قاصر ہیں۔ انہیں مستعفی ہوجانا چاہیے،”۔

 اگر دو تہائی سے زیادہ قانون ساز تحریک کی حمایت کریں تو قومی اسمبلی کے پاس صدر کے مواخذے کا اختیار ہے۔ اس کے بعد آئینی عدالت کے ذریعہ ایک مقدمہ چلایا جائے گا، نو میں سے چھ ججوں کے ووٹ سے مواخذے کی تصدیق ہو سکتی ہے۔ یون کی پارٹی 300 رکنی مقننہ میں 108 نشستیں رکھتی ہے۔

اگر یون مستعفی ہو جائیں یا معزول ہو جائیں تو وزیراعظم ہان ڈک سو 60 دنوں کے اندر نئے انتخابات ہونے تک قیادت سنبھالیں گے۔ ریاستہائے متحدہ امریکا میں ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے نائب صدر ڈینی رسل نے تبصرہ کیا، "ایک قوم کے طور پر جنوبی کوریا نے کسی بحران سے آسانی سے گریز کیا، لیکن صدر یون نے اپنی پوزیشن کو کمزور کیا ہے۔”

ایک ایسی قوم کی صورت حال جس نے 1980 کی دہائی سے جمہوری نظام کو برقرار رکھا ہوا ہے، اور جسے امریکی اتحادی اور ایک اہم ایشیائی معیشت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، نے بین الاقوامی خدشات کو جنم دیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے صدر یون کے مارشل لاء کے اعلان کو منسوخ کرنے کے انتخاب کی منظوری کا اظہار کیا۔ بلنکن نے ایک ریلیز میں کہا، "ہم سیاسی اختلافات کو پرامن طریقے سے اور قانون کی حکمرانی کے مطابق حل کرنے کی توقع کرتے  ہیں۔”

یہ بھی پڑھیں  شی جن پنگ کی بائیڈن سے پیرو میں ملاقات، ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعاون کے عزم کا اظہار

جنوبی کوریا میں تقریباً 28,500 امریکی فوجی موجود ہیں، جو 1950 سے 1953 تک کی کوریائی جنگ کی باقیات ہیں۔ یونہاپ نیوز ایجنسی کے مطابق، جنوبی کوریا اور امریکہ کے درمیان طے شدہ دفاعی بات چیت اور مشترکہ فوجی مشقیں ملتوی کر دی گئی ہیں۔

مزید برآں، سویڈن کے وزیر اعظم نے جنوبی کوریا کا دورہ بھی موخر کر دیا ہے، ایک ترجمان نے اس کی تصدیق کی ہے۔ یون، ایک سابق پراسیکیوٹر، نے معاشی پالیسیوں، اسکینڈلز اور صنفی مسائل سے وسیع پیمانے پر عدم اطمینان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، 2022 میں جنوبی کوریا کی تاریخ کے سخت ترین صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ تاہم، ان کی مقبولیت میں کمی آئی ہے، مقبولیت کی درجہ بندی کئی مہینوں تک تقریباً 20 فیصد تک محدود رہی۔ ان کی پیپلز پاور پارٹی کو اس سال اپریل میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، جس سے یک ایوانی اسمبلی کا کنٹرول اپوزیشن جماعتوں کے ہاتھ چلا گیا جنہوں نے تقریباً دو تہائی نشستیں حاصل کیں۔

1948 میں جمہوریہ کے طور پر جنوبی کوریا کے قیام کے بعد سے اب تک ایک درجن سے زائد مرتبہ مارشل لاء کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ 1980 میں، فوجی افسروں کے ایک دھڑے نے، جس کی سربراہی چون ڈو-ہون نے کی، نے اس وقت کے صدر چوئی کیو-ہا کو مجبور کیا کہ وہ اپوزیشن، مزدور گروہوں اور جمہوری حکومت کی بحالی کے لیے طلبا کے مطالبات کو دبانے کی کوشش میں مارشل لاء کا اعلان کریں۔

آصف شاہد
آصف شاہدhttps://urdu.defencetalks.com
آصف شاہد صحافت کا پچیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں ۔ وہ ڈیفنس ٹاکس کے ایڈیٹر ہیں ۔انہوں نے اپنی صلاحیتوں ، وسیع صحافتی تجربے اور مطالعہ سے ڈیفنس ٹاکس کو دفاع، سلامتی اور سفارت کاری سے متعلق ایک ایسا پلیٹ فارم بنا دیا ہے ۔ جس کے سنجیدہ اردو قارئین ایک مدت سے منتظر تھے ۔ آصف شاہد یہ ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے متعدد قومی اخبارات اور ٹی وی چینلوں میں مختلف عہدوں پر کام کر چکے ہیں ۔ انہوں نے خبریں گروپ میں جوائنٹ ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دیں اور قارئین کو اعلیٰ معیار کے مواد کی فراہمی پر روایت ساز ایڈیٹر ضیا شاہد سے داد پائی۔ انہوں نے میڈیا کے تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے منظر نامے میں موافقت کا مظاہرہ کیا اور اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے پرنٹ میڈیا کے بجائے الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کو منتخب کیا ۔ڈان ٹی وی پر لکھے گئے ان کے فکر انگیز کالم حوالے کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں ۔ان کالموں نے ریٹینگ میں بھی نمایاں درجہ حاصل کیا۔وہ تاریخ ، ادب اور کئی زبانوں کا علم رکھتے ہیں ۔وہ قارئین کو خطے کی سیاست ، سلامتی اور سماجی پیش رفت کے درمیان پیچیدہ تعامل کے بارے میں باریک بینی اور وضاحت کے ساتھ آگاہ کرتے ہیں ۔مذہب کے مطالعہ کی وجہ سے مذہبی تحریکوں کی سوچ کو سمجھتے ہیں اور یہ ان کے لیے قارئین کو عالم اسلام اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال سے درست پس منظر میں پیش کرنے کے لیے مدد گار ہے ۔

جواب دیں

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا

مقبول ترین