پیر, 14 جولائی, 2025

تازہ ترین

متعلقہ تحریریں

ٹرمپ نے جنوبی افریقا کے صدر کے ساتھ اوول آفس ملاقات میں کیسے گھات لگائی؟

بدھ کے روز اوول آفس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ جنوبی افریقی ہم منصب کی ملاقات سے عین قبل، وائٹ ہاؤس کے عملے کو ڈرائیو وے کے نیچے اور ویسٹ ونگ میں دو بڑے ٹیلی ویژن لے جاتے ہوئے دیکھا گیا۔ صدر سیرل رامافوسا اس کے لیے تیار نہیں تھے جو سامنے آنے والا تھا۔

ٹرمپ نے روشنیوں کو مدھم کر دیا اور وہ کام کیا جسے گھات لگا کر حملے سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے، ایک ویڈیو پیش کرتے ہوئے ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ  یہ ان کے اس دعوے کا ثبوت ہے کہ سفید فام جنوبی افریقیوں کو ظلم و ستم اور ‘نسل کشی’ کا سامنا ہے۔ حیرت زدہ رامافوسا، جو ٹرمپ کے ساتھ گولف کے بارے میں ہلکی پھلکی گفتگو میں مصروف تھے، خاموش رہے۔ سفید فام اقلیتی حکمرانی کے خلاف تحرییک کے دوران نیلسن منڈیلا کے چیف مذاکرات کار کے طور پر کام کرنے والے تجربہ کار سفارتکار، رامافوسا نے ان لمحات کے دوران بے چینی چھپانے کی کوشش کی۔

یہ ٹکراأ واضح طور پر پہلے سے طے شدہ تھا، ٹرمپ کی ٹیم نے انہیں کیمروں کے سامنے دکھانے کے لیے پرنٹ شدہ مضامین فراہم کیے، جن کے بارے میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ سفید فام ‘نسل کشی’ کے الزامات کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ تقریباً یقینی لگ رہا تھا کہ ٹرمپ جنوبی افریقہ میں زمینوں پر قبضے اور سفید فام کسانوں کے بڑے پیمانے پر قتل کے بارے میں – جن کے بارے میں وہ مہینوں سے آواز اٹھا رہے ہیں، کو فروغ دینے کے موقع سے فائدہ اٹھائیں گے۔ پچھلے ہفتے، 59 سفید فام جنوبی افریقی وائٹ ہاؤس کی طرف سے پناہ گزین کا درجہ ملنے کے بعد امریکہ پہنچے تھے۔

یہ بھی پڑھیں  امریکا کے فیصلہ کن اقدامات یوکرین جنگ کے خاتمے میں تیزی لا سکتے ہیں، صدر زیلنسکی

جنوری میں عہدہ سنبھالنے کے بعد سے، ٹرمپ اپنی ملاقاتوں کو محاذ آرائی کے پلیٹ فارم میں تبدیل کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے ہیں۔ تاہم، جنوبی افریقا کے صدر کے ساتھ ملاقات کے دوران ٹرمپ نے جو ملٹی میڈیا تماشہ سٹیج کیا اس نے اوول آفس میں اس سے پہلے انجام دیے گئے کسی بھی ڈرامے کو پیچھے چھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ فروری میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ ان کی تلخ کلامی، جسے کچھ ناقدین نے پہلے سے طے شدہ سیٹ اپ کے طور پر دیکھا، میں ویڈیوز نہیں دکھائی گئیں۔

وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار نے اشارہ کیا کہ ٹرمپ کا بدھ کے روز ہونے والے پروگرام کا مقصد ایک ایسے مسئلے کو اجاگر کرنا تھا جسے انتظامیہ کا خیال ہے کہ میڈیا نے نظر انداز کیا ہے۔ ٹرمپ نے اس معاملے کے حوالے سے ‘ہزاروں’ سے رائے لینے کا دعویٰ کیا۔

اپنے ملک کے حالات کو واضح کرنے اور ٹرمپ کے الزامات کو دور کرنے کے لیے رامافوسا کی کوششوں سے ٹرمپ لاپروا نظر آئے۔ ‘موت، موت، موت، دہشتناک موت،’ ٹرمپ نے  اخباری تراشوں کو پلٹتے ہوئے کہا۔ ان واقعات سے یہ واضح تھا کہ ٹرمپ اور ان کی ٹیم نے سفید فاموں کو نشانہ بنانے کے بے بنیاد دعووں کو ثابت کرنے کے لیے پیشگی تیاری کی تھی۔

معاونین نے نوٹ کیا کہ انہیں توقع تھی کہ یہ موضوع اوول آفس کے مباحثے پر غالب رہے گا اور وہ واشنگٹن کے سفر سے قبل ٹرمپ کی غلط فہمیوں کو درست کرنے کے رامافوسا کے ارادے سے واقف تھے۔ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس سٹاف کو مواد سے لیس ہو کر میٹنگ میں پہنچنے اور ایک ویڈیو دکھانے کا اشارہ کیا جس میں اپوزیشن لیڈر جولیس ملیما نے سفید فام کسانوں کے خلاف تشدد کا مطالبہ کیا تھا۔ ویڈیو کے ختم ہونے کے فورا بعد، وائٹ ہاؤس نے اپنے آفیشل سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایک کاپی شیئر کی۔ میٹنگ کے دوران ٹرمپ نے جن مضامین کا ذکر کیا ان کو ان کے معاونین نے منظم طریقے سے آن لائن پھیلایا۔

یہ بھی پڑھیں  پیٹریاٹ سسٹم کی اسرائیل سے یوکرین منتقلی، ایران کے لیے امریکا کے مثبت اشارے؟

ٹرمپ کے حامیوں نے سوشل میڈیا پر اس ٹکراؤ کی تعریف کی اور اسے صدر کی عالمی رہنماؤں سے جوابدہی کا مطالبہ کرنے کی ایک اور مثال سے تعبیر کیا۔ معلومات کے اسٹریٹجک اجراء نے ٹرمپ کی جانب سے میٹنگ سے فائدہ اٹھانے کی طرف اشارہ کیا تاکہ ان کے بیانیے کو فروغ دیا جا سکے۔ رامافوسا کی جانب سے تجارتی اور جغرافیائی سیاسی معاملات پر توجہ مرکوز کرنے کے ارادے، جنوبی افریقی صدر کی طرف سےدو پیشہ ور گولفرز کو اپنے وفد میں مدعو کرنا یا اوول آفس کی سجاوٹ کے لیے ٹرمپ کی تعریف کرنا، یہ سب  غیرمتوقع واقعات کو روک نہیں سکا۔

رامافوسا نے ویڈیو کے بعد کہا۔  ‘آپ نے تقریروں میں جو کچھ دیکھا وہ حکومتی پالیسی کی عکاسی نہیں کرتا۔ ہمارے پاس جنوبی افریقہ میں کثیر الجماعتی جمہوریت ہے جو متنوع آراء کی اجازت دیتی ہے، ہماری حکومتی پالیسی مکمل طور پر اس کے خلاف ہے جو وہ کہہ رہے تھے۔’

سفید فام جنوبی افریقیوں کے ساتھ مبینہ بدسلوکی کے بارے میں ٹرمپ کی شکایت کوئی حالیہ پیش رفت نہیں ہے۔ انہوں  نے اپنی پہلی میعاد کے دوران سفید فام کسانوں کو ان کی جائیدادوں سے بے گھر کرنے پر تنقید کی۔ تاہم، ان کے جبر اور ‘نسل کشی’ کے عوامی دعوے ان کی دوسری مدت کے ابتدائی مہینوں میں نمایاں طور پر تیز ہو گئے ہیں۔ وائٹ ہاؤس نے دیگر گروپوں کی جانب سے پناہ گزینوں کی درخواستوں کو روکتے ہوئے سفید فام افریقی پناہ گزینوں کی پناہ کی درخواستوں پر کارروائی کو تیز کر دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں  اسرائیل نے لبنان پر فضائی بمباری شروع کردی

اس سال کے شروع میں امریکہ نے جنوبی افریقہ کی امداد معطل کر دی تھی اور سفیر کو ملک بدر کر دیا تھا۔ بہت سے معاملات میں، ٹرمپ نے جنوبی افریقہ کے قوانین پر تنقید کی — یہ قوانین نسل پرستی کی ناانصافیوں کو دور کرنے کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں۔ ٹرمپ کے موقف کو جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والے ارب پتی ایلون مسک کی حمایت حاصل  ہے، جو نئی انتظامیہ کے ابتدائی مرحلے کے دوران ٹرمپ کے اہم مشیروں میں سے ایک تھے۔

مسک نے خود کو وفاقی حکومت میں اصلاحات کی کوششوں سے زیادہ تر دور رکھا ہے تاکہ وہ اپنی کاروباری سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کر سکیں۔ تاہم، وہ رامافوسا کے ساتھ ملاقات کے لیے بدھ کے روز وائٹ ہاؤس واپس آئے، اور گولڈ کے صوفوں میں سے ایک کے پیچھے کھڑے رہے جب متنازعہ بات چیت ہورہی تھی۔ مسک نے پہلے جنوبی افریقہ پر الزام لگایا تھا کہ وہ سیاہ فام ملکیت کے ضوابط کی عدم تعمیل کی وجہ سے ان کی سٹار لنک انٹرنیٹ سروس کے آپریشن میں رکاوٹ ہے۔

بدھ کی میٹنگ سے پہلے، جنوبی افریقی حکومتی اہلکار ایک ایسا حل تجویز کرنے کی تیاری کر رہے تھے جو مسک کے منصوبے کو ملک کے اندر کام کرنے کے قابل بنائے۔ اس اقدام کو بات چیت سے قبل امریکی انتظامیہ کے ساتھ خیر سگالی کو فروغ دینے کی کوشش کے طور پر دیکھا جارہا تھا۔ بہر حال، تناؤ کو کم کرنے پر اس کا بہت کم اثر دکھائی دیا۔

اوول آفس کی کارروائی کے دوران، ٹرمپ نے مسک کو بولنے کی اجازت دینے گریز کرتے ہوئے یہ کہا کہ ‘ایلون کا تعلق جنوبی افریقہ سے ہے، اور میں اس کے بارے میں ان سے بات نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ اس کے لیے مناسب ہے۔’

آصف شاہد
آصف شاہدhttps://urdu.defencetalks.com
آصف شاہد صحافت کا پچیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں ۔ وہ ڈیفنس ٹاکس کے ایڈیٹر ہیں ۔انہوں نے اپنی صلاحیتوں ، وسیع صحافتی تجربے اور مطالعہ سے ڈیفنس ٹاکس کو دفاع، سلامتی اور سفارت کاری سے متعلق ایک ایسا پلیٹ فارم بنا دیا ہے ۔ جس کے سنجیدہ اردو قارئین ایک مدت سے منتظر تھے ۔ آصف شاہد یہ ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے متعدد قومی اخبارات اور ٹی وی چینلوں میں مختلف عہدوں پر کام کر چکے ہیں ۔ انہوں نے خبریں گروپ میں جوائنٹ ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دیں اور قارئین کو اعلیٰ معیار کے مواد کی فراہمی پر روایت ساز ایڈیٹر ضیا شاہد سے داد پائی۔ انہوں نے میڈیا کے تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے منظر نامے میں موافقت کا مظاہرہ کیا اور اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے پرنٹ میڈیا کے بجائے الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کو منتخب کیا ۔ڈان ٹی وی پر لکھے گئے ان کے فکر انگیز کالم حوالے کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں ۔ان کالموں نے ریٹینگ میں بھی نمایاں درجہ حاصل کیا۔وہ تاریخ ، ادب اور کئی زبانوں کا علم رکھتے ہیں ۔وہ قارئین کو خطے کی سیاست ، سلامتی اور سماجی پیش رفت کے درمیان پیچیدہ تعامل کے بارے میں باریک بینی اور وضاحت کے ساتھ آگاہ کرتے ہیں ۔مذہب کے مطالعہ کی وجہ سے مذہبی تحریکوں کی سوچ کو سمجھتے ہیں اور یہ ان کے لیے قارئین کو عالم اسلام اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال سے درست پس منظر میں پیش کرنے کے لیے مدد گار ہے ۔

جواب دیں

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا

مقبول ترین