منگل کے روز، صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اعلان کیا کہ یوکرین جنگ بندی کے قیام کے لیے کسی بھی شکل میں روس کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔ دریں اثنا، فنانشل ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ صدر ولادیمیر پوتن نے موجودہ فرنٹ لائنز پر روس کے حملے کو معطل کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔
دونوں فریق یوکرین میں روس کی جاری جنگ کو ختم کرنے کی طرف پیشرفت ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جنگ اب اپنے چوتھے سال میں داخل ہو چکی ہے، دونوں فریقوں کی آمادگی صدر ٹرمپ کی وارننگ کے بعد سامنے آئی ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر کوئی اہم پیش رفت نہ ہوئی تو وہ امن کی کوششوں سے دستبردار ہو سکتے ہیں۔
زیلنسکی نے کیف میں صدارتی دفتر میں ایک پریس بریفنگ کے دوران کہا، ‘ہم اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں کہ جنگ بندی کے بعد، ہم کسی بھی شکل میں ملاقات کے لیے تیار ہیں تاکہ کوششیں رائیگاں نہ جائیں،’۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امن معاہدے کی شرائط کے بارے میں بات چیت صرف اس وقت شروع ہونی چاہئے جب لڑائی ختم ہو جائے، صدر زیلنسکی نے یہ نوٹ کیا کہ تمام معاملات پر تیزی سے اتفاق رائے تک پہنچنا غیر حقیقی ہوگا۔
یوکرین کے صدر نے کہا کہ ان کے وفد کو پیرس میں گزشتہ ہفتے ہونے والی ملاقات کے بعد بدھ کو لندن میں یورپی اور امریکی حکام کے ساتھ بات چیت کے دوران مکمل یا جزوی جنگ بندی پر بات چیت کا اختیار دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی، وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا کہ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی، اسٹیو وِٹکوف، پوتن کے ساتھ بات چیت کے لیے اس ہفتے کے آخر میں روس جائیں گے۔
فنانشل ٹائمز نے ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ، پوتن نے اس ماہ کے شروع میں سینٹ پیٹرزبرگ میں وِٹکوف سے ملاقات کے دوران تجویز پیش کی تھی کہ وہ فرنٹ لائن کے ساتھ حملے کو روکنے اور یوکرائن کے چار علاقوں پر مکمل کنٹرول کے دعوے ترک کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔
روس اس وقت صرف جزوی طور پر ڈونیٹسک، خیرسون، لوہانسک، اور زاپوریزہیا علاقوں پر کنٹرول رکھتا ہے۔ پوتن نے عوامی طور پر اصرار کیا ہے کہ یوکرین کیف کے زیر قبضہ ان علاقوں سے اپنی فوجیں نکال لے۔
فنانشل ٹائمز نے نوٹ کیا کہ یہ تجویز جنگ کے ابتدائی مہینوں کے بعد پیوٹن کی طرف سے پہلا باضابطہ اشارہ ہے کہ روس اپنے کچھ اور انتہائی مطالبات پر نظر ثانی کر سکتا ہے، یورپی حکام نے امریکی کوششوں کے بارے میں بتایا کہ روس کی واضح رعایت ایک اسٹریٹجک مذاکراتی چال ہو سکتی ہے۔
منگل کے روز، واشنگٹن پوسٹ نے بات چیت سے واقف ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا، کہ واشنگٹن نے ممکنہ معاہدے کے حصے کے طور پر روس کے کریمیا کے الحاق کو تسلیم کرنے اور جنگ کے اگلے مورچوں پر جنگ بندی قائم کرنے کی تجویز دی تھی۔ فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق کریمیا کا جزیرہ نما، جسے روس نے 2014 میں یوکرین سے قبضے میںں لیا، پوٹن کی تجویز میں مذکور چار خطوں میں شامل نہیں ہے۔
صدر زیلنسکی نے مسلسل کہا ہے کہ یوکرین کریمیا اور دیگر علاقوں پر روس کے قبضے کو تسلیم نہیں کرے گا، کیونکہ یہ ملک کے آئین کے منافی ہوگا۔ اس کے باوجود، انہوں نے اشارہ دیا ہے کہ یوکرین فوجی کارروائی کے بجائے سفارتی ذرائع سے ان علاقوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر سکتا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، امریکا نے یہ تجاویز گزشتہ ہفتے پیرس میں مغربی ممالک کے ساتھ ملاقات کے دوران کیف کو پیش کیں۔ امن کے عمل میں رکاوٹ بننے والے اضافی تنازعات میں کریملن کا یوکرین سے غیر جانبداری کا باضابطہ موقف اپنانے اور نیٹو فوجی اتحاد میں شمولیت سے گریز کا مطالبہ شامل ہے۔
یوکرین امن معاہدے کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے ایک بین الاقوامی فورس کی تعیناتی کا بھی خواہاں ہے، جو کہ روس کی مزید جارحیت کے خلاف حفاظتی ضمانت فراہم کرسکتی ہے، اس شرط کو ماسکو بار بار مسترد کر چکا ہے۔
ایک قابل ذکر تبدیلی میں، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو لندن میں ہونے والی بات چیت میں شرکت نہیں کریں گے، جیسا کہ منگل کو محکمہ خارجہ کے ترجمان نے تصدیق کی، جس نے نوٹ کیا کہ یوکرین کے لیے واشنگٹن کے ایلچی جنرل کیتھ کیلوگ، روبیو کی جگہ موجود ہوں گے۔
گزشتہ ہفتے، ٹرمپ اور روبیو نے اشارہ کیا کہ واشنگٹن اپنے امن اقدام سے دستبردار ہو سکتا ہے بشرطیکہ چند دنوں میں اہم پیش رفت نہ ہو جائے۔ اتوار کے روز، ٹرمپ نے امید ظاہر کی کہ اس ہفتے ایک معاہدہ طے پا جائے گا۔
Discover more from Defence Talks Urdu | Defense News Military Pictures
Subscribe to get the latest posts sent to your email.